خبر نامہ اسلامی مرکز ۶۵

۱۔ برصغیر ہند میں مغل سلطنت کا خاتمہ اور وسیع تر عالم اسلام میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد ساری دنیا میں احیا ء کی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ان تحریکوں کا مشترک فکر یہ تھا کہ" اسلام کا اقدامی عمل جہاد ہے"۔ یہ حالت سوسال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہی ۔ یہاں تک کہ ۱۹۷۶ میں الرسالہ جاری ہوا۔ اس نے پہلی بار یہ آواز بلندکی کہ "اسلام کا اقدامی عمل دعوت ہے "۔ اس وقت یہ ایک تنہا آواز تھی ۔ آج اللہ کے فضل سے ساری دنیا میں لاکھوں آدمی اس پیغام کی اہمیت کو سمجھ چکے ہیں۔ بہت جلد ان شاء اللہ وہ وقت آنے والا ہے جبکہ یہی دعوتی فکر سارے عالم اسلام کا غالب فکر بن جائے۔

۲۔پچھلے ۵۰  سال سے ہندستانی مسلمانوں کو ایک ہی بات بتائی جارہی تھی ۔ یہ کہ تمہاری ہر محرومی دوسروں کے زیادتی اور تعصب کا نتیجہ ہے ۔ الرسالہ نے پہلی با ربتا نا شروع کیا کہ یہ زندگی کی حقیقت ہے نہ کہ تعصب۔ اور محنت اور تدبیر کے ذریعہ اس پرقا بو پایا جاسکتا ہے۔ اب وہ لوگ بھی اس واقعہ کا اعتراف کرنے لگے ہیں جو دوسروں کے ظلم و تعصب کے اعلان کے چمپئن بنے ہوئے تھے ۔ مثلاً مسٹر شہاب الدین اپنے روایتی فکر کو دہراتے ہوئے اب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ––––– مگر محرومی زندگی کی ایک حقیقت ہے ، صرف ہندستانی مسلمانوں کے لیے    نہیں بلکہ ۸۵ فی صد عوام کے لیے    بھی۔ اور صرف تعلیم میں نہیں بلکہ انسانی سرگرمیوں کے ہر میدان میں۔ اس لیے    محدود مواقع میں مقابلہ کی صورت حال کے اندر مراعات یافتہ مفادات اور غالب طبقوں کے خلاف ایک مستقل چوکسی اور مسلسل جد و جہد کی ضرورت ہے:

But deprivation is a fact of life and not only for Muslim Indians but for 85% of our people not only in education but in every field of human activity. So a constant vigil and a ceaseless struggle are called for in a situation of competition for scarce resources against vested interests and dominant groups. Muslim India. July 1990, p. 294۔

۳۔الرسالہ کا فکر خدا کے فضل سے اب اتنا غالب آچکا ہے کہ تقریباً  تمام لوگ کسی نہ کسی طور پر اب اسی کو دہرارہے ہیں ۔ تاہم اعتراف کی جرأت نہ ہونے کی وجہ سے وہ الرسالہ کی بات کو اپنی بات بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ماہنامہ ریاض الجنۃ(مئی ۱۹۹۰ ) کا اداریہ(عصر حاضر کا تقاضا) پورا کا پورا الرسالہ کی نقل ہے ۔ صرف معمولی طور پر کچھ الفاظ بدل دیے گئے ہیں۔ یہ بات اگر اپنی غلطی کے اعتراف کے ساتھ کی جائے تو زیادہ موثر ہو۔

۴۔جناب شکیل احمد خلیل صاحب ( ابوظبی) الرسالہ مشن سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ وہ تقریباً ہرماہ مختلف اسلامی اداروں ، دینی درس گاہوں اور اردو لائبریریوں کے نام ماہانہ الرسالہ جاری کرواتے ہیں۔ اس کے ساتھ الرسالہ کیسٹ اور مرکز کی دوسری مطبوعات بھی ایک قابل لحاظ تعداد میں بطور ہدیہ ارسال کرواتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مزید کچھ ا فراد اس قسم کے حوصلہ مندانہ تعاون کے لیے    آگے بڑھیں تا کہ الرسالہ کا دعوتی اور تعمیری مشن زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر پھیل سکے۔

۵۔اسلامک سنٹر آف نارتھ امریکا (I.C.N.A) کے زیر اہتمام نیویارک میں بتاریخ ۲۰ تا ۲۲ جولائی ۱۹۹۰ ایک سہ روزہ کنونشن منعقد ہوا۔اس موقع پر امریکہ میں ہمارے مخلص معاون جناب خواجہ کلیم الدین صاحب اور ان کے رفقاء نے اسلامی مرکز کی مطبوعات کا اسٹال لگایا۔جس کو حیرت انگیز کامیابی ملی۔کافی بڑی تعداد میں لوگوں نے نہایت ذوق و شوق اور دلچسپی کے ساتھ کتابوں کا مشاہدہ کیا۔اس طرح خدا کے فضل سے ایک نئے حلقہ میں الرسالہ اور مرکز کی  دیگر مطبوعات کا تعارف ہوگیا۔

۶۔اسلامی مرکز کی مطبوعات ہدیۃ ً  ارسال کرنے کے لیے ہمیں دینی درسگا ہوں ، اردو لائبریریوں، اسکولوں اور کالجوں کے پتے مطلوب ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے علاقے میں واقع دینی مدارس اور دوسرے علمی اداروں کے پتے مختصر تعارف کے ساتھ ارسال فرمائیں۔ اگر اداروں کے ذمہ دار حضرات کو اس پہلو پر توجہ دلا کر ان کا مطبوعہ تعارف نامہ روانہ کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

۷۔پاکستان کا مشہور اخبار "وفاق " ہر روز اپنے صفحہ ۳ پر الرسالہ کا کوئی ایک مضمون نقل کرتا ہے ۔ اس کے ادارتی نوٹس میں بھی الرسالہ کے فکر کی جھلک آنے لگی ہے ۔ مثلاً اس کے شمارہ ۱۳ جون ۱۹۹۰ میں ایک نوٹ کا عنوان ہے۔" مسائل امن کی قوت سے حل کیجیے" ۔ اس نوٹ میں پاکستانی حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پڑوسی ملک سے ہمارے جو مسائل ہیں ان کو ہمیں جنگ کی قوت سے نہیں بلکہ امن کی قوت سے حل کرنا چاہیے    ۔ یہ واضح طور پر الرسالہ کے فکر کی تاثیر کی ایک مثال ہے۔

۸۔جوہانسبرگ (افریقہ )کے انگریزی ماہنامہ البلاغ نے اپنے صفحات میں الرسالہ انگریزی کے مضامین نقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کے ایڈیٹر نے اپنے خط (۲  جولائی ۱۹۹۰ ) میں لکھا ہے :

I have taken the liberty of reproducing an article in the current issue of Al-Balagh, and wish to do so in future also, with your kind permission, for da'wah work. Your articles are short, concise, succinct and to the point. They are eye-openers and I, for one, enjoy reading them immensely. Every article, including the titbits, are highly educative and enlightening. (A.S.K. Joommal)

۹۔سرینگر کا اخبار "روشنی " کشمیر کے جنگجوؤں اور دہشت گردوں کی باتیں مسلسل چھاپتا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ الرسالہ کے وہ مضامین بھی تقریباً ہر شمارہ میں چھاپ رہا ہے جن میں امن اور تعمیر اور انسانیت کا پیغام ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نام نہاد اسلام پسندوں کی چھیڑی ہوئی تخریبی سیاست کے ساتھ الرسالہ کا تعمیری فکر کس طرح متوازی طاقت بن کر ابھر رہا ہے ۔

۱۰۔جناب مہدی حسن صاحب (بنارس )نے ۲۰ جون ۱۹۹۰ کی ملاقات میں بتایا کہ پروفیسر نور محمد بنارسی امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں قانون کے استاد ہیں۔ ان کی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا ایک اجتماع ہوا۔ اس میں غیر مسلم حضرات بھی شریک تھے۔ ایک غیر مسلم پر وفیسر نے کہا "یہ بتائیے کہ آپ کے اسلام میں وہ کون سی تعلیم ہے جو موجودہ حالات میں سب سے زیادہ قابل عمل اور ریلیونٹ ہے ۔ ایک مسلمان پر وفیسر نے کہا کہ "صلح حدیبیہ کا اصول ایک ایسا اصول ہے جو آج کے حالات میں سب سے زیادہ قابل عمل اور ریلیونٹ ہے"۔ غیر مسلم حضرات نے اس جواب کو بہت پسند کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الرسالہ کا طرز فکر کس طرح عالمی سطح پر پھیل رہا ہے۔

۱۱۔تذكیر القرآن کا عربی ترجمہ پہلے سے کیا جارہا تھا۔ اب اس کا انگریزی ترجمہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom