ایک سبق
"اللہ تعالی ہی کو مقدم کرو اور دین کو دنیا پر ترجیح دو ۔ جب تک انسان اپنے اندر دنیا کا کوئی حصہ بھی پاتا ہے وہ یادرکھے کہ ابھی وہ اس قابل نہیں کہ دین کا نام بھی لے ۔ یہ ایک غلطی لوگوں کو لگی ہوئی ہے کہ دنیا کے بغیر دین حاصل نہیں ہوتا۔ انبیاء علیہم السلام جب دنیا میں آئے ہیں، کیا انھوں نے دنیا کے لیے سعی اور مجاہدہ کیا ہے یا دین کے لیے ؟ اور باوجود اس کے کہ ان کی ساری توجہ اور کوشش دین ہی کے لیے ہوتی ہے پھر کیا وہ دنیا میں نامراد ر ہے ۔ کبھی نہیں، دنیا خود ان کے قدموں پر آکر گری۔ یہ یقیناً سمجھو کہ انھوں نے دنیا کو گو یا طلاق دے دی تھی۔ لیکن یہ ایک عام قانون قدرت ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں وہ دنیا کو ترک کرتے ہیں۔ اس سے یہ مراد ہے کہ وہ دنیا کو اپنا مقصود اور غایت نہیں ٹھہراتے ۔ اور دنیا ان کی خادم اور غلام ہو جاتی ہے۔ جو لوگ برخلاف اس کے دنیا کو اپنا اصل مقصود ٹھہراتے ہیں خواہ وہ دنیا کو کسی قدر بھی حاصل کر لیں مگر آخر ذلیل ہوتے ہیں۔ سچی خوشی اور اطمینان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عطا ہوتا ہے۔ یہ مجرد دنیا کےحصول پر منحصر نہیں ہے۔" (ملفوظات جلد ہفتم صفحہ ۳۱۶-۳۱۷)
او پر جو عبارت نقل کی گئی، وہ ایک اقتباس ہے۔ اس کو پڑھیے۔ بظاہر یہ کسی مسلمان بزرگ کا کلام معلوم ہوتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ دراصل مرزا غلام احمد قادیانی کا ملفوظ ہے جوقادیان کے ہفت روزہ بدر ( ۳۱ مئی ۱۹۹۰) کے صفحہ اول پر چھپا ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کو تمام مسلم علما ءنے متفقہ طور پر کافر قرار دیا ہے ۔ اس کے باوجود ان کے" ملفوظات " میں ایسی باتیں ملتی ہیں جن کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کہ وہ کسی سچے بزرگ کاکلام ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ صرف اچھا کلام اس بات کا ثبوت نہیں کہ اس کو کہنے والا اچھا انسان یا صحیح انسان بھی ضرور ہے۔ کسی انسان کو سمجھنے کے لیے اس کے پورے کلام اور اس کی پوری زندگی کو دیکھنا چاہیے نہ کہ صرف جزئی کلام یا جزئی زندگی کو۔ کسی انسان کے بارے میں حکم لگانے کے لیے اس کی تقریر یا تحریر کا صرف ایک اقتباس کافی نہیں ۔