عجیب فرق
نئی دہلی میں رانی جھانسی مارگ پر ہفت روزہ آرگنائزر اور پانچ جنیہ کے دفاتر قائم ہیں۔ ان کے ذمہ داروں نے کئی بار مجھ سے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ ہم اپنے یہاں ایک میٹنگ کریں اور آپ وہاں آکر ہمیں اپنے خیالات سے آگاہ کریں ۔ آخر کار اس کے لیے ۷ جولائی ۱۹۹۰ء کی تاریخ مقرر ہوئی۔ اس روز وہاں جا کر میں نے اسلام کے بارے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کی اور سوالات کے جوابات دیے۔
مسلم اخبارات نے اپنی خود ساختہ رپورٹنگ میں اس تقریر کو کچھ کا کچھ بنا دیا۔ مثال کے طور پر ایک مسلم ہفت روزہ نے اس کی جو رپورٹ چھاپی اس کا عنوان سنسنی خیز طور پر یہ تھا :
مولانا وحید الدین خان : مسلم دشمن طاقتوں کے ہاتھ کا کھلونا ۔
مسلم اخبار کے نز دیک میری تقریر اس بات کا ثبوت تھی کہ میں مسلم دشمن طاقتوں کے ہاتھ کا کھلونا ہوں ۔مگر جن ہند و صاحبان کے درمیان میں نے وہ تقریر کی ، ان کی نظر میں سارا معاملہ بالکل برعکس تھا۔
آرگنائزر کے ایڈیٹر مسٹر وی پی بھاٹیا نے اپنے اخبار کی دو قسطوں (۵ اگست ، ۱۹ اگست ۱۹۹۰) میں اس کی بابت اپنے تاثرات شائع کیے ہیں۔ وہ خود اس میٹنگ میں شروع سے آخر تک موجود تھے ۔ انھوں نے میری تقریر کا جو خلاصہ نکالا وہ یہ تھاکہ میرا مشن اسلام کی تبلیغ اور تبدیلیٔ مذہب (proselytisation) ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی رپورٹ کا عنوان ان لفظوں میں قائم کیا ہے ––––– ایک مبلغ مولانا :
A Missionary Maulana
ایک ہی مقرر اپنی ایک تقریر کے مطابق مسلم اخبار کی نظر میں "دشمن اسلام "ہے ، اور وہی مقرر اپنی اسی تقریر کے مطابق ہندو اخبار کی نظر میں " مبلغ اسلام "–––– کیسا عجیب ہے یہ فرق جو ایک اخبار اور دوسرے اخبار کے درمیان پایا جاتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اخبارات موجودہ زمانے میں ، زرد صحافت(yellow journalism) کا بدترین نمونہ ہیں۔ اس کی ایک مثال مذکورہ واقعہ میں نظر آتی ہے۔
مسلمانوں کی یہ غیر اسلامی صحافت ہی بلاشبہ موجودہ مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔