بے فائدہ
تحریک نسواں (feminism) کے مغربی علم برداروں کا کہنا تھا کہ عورت اور مرد ہر اعتبار سے بالکل یکساں ہیں۔ ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ انھیں مسز (Mrs.) کے لفظ پر اعتراض ہوا۔ انھوں نے کہا کہ عورت کو اس کے شوہر کے نام کے ساتھ مسز لگا کر کہنا عورت کی تو ہین ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کی کوئی علاحدہ شخصیت نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح مرد کے لیے ایک مستقل لفظ مسٹر (Mr.) ہے ۔ اسی طرح عورت کے لیے بھی ایک مستقل لفظ ہونا چاہیے ۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے مز (Ms) کا لفظ تجویز کیا جو محدود طور پر رائج ہوا۔
تاہم تحریک نسواں کے وکیل اس سے مطمئن نہ ہو سکے ۔ اس کے بعد انھوں نے کہنا شروع کیا کہ جنس (تذکیر و تانیث) کو ظاہر کرنے والے الفاظ ہی سرے سے ڈکشنری سے نکال دیے جائیں ۔ اس تحریک نے امریکی حکومت کو اس حد تک متاثر کیا کہ ۱۹۷۹ میں امریکہ کے صحت، تعلیم اور فلاح عامہ کے محکموں نے ہدایت جاری کر دی کہ ایسے انگریزی الفاظ استعمال نہ کیے جائیں جن سے جنس کا اظہار ہوتا ہو۔ ایسے کا غذات اور فارم جن میں جنس کو ظاہر کرنے والے الفاظ استعمال کیے گئے ہوں ۔ ان حکومتی شعبوں میں قبول نہیں کیے جائیں گے۔ ممنوعہ الفاظ کی لمبی فہرست میں سے چند الفاظ یہ ہیں :
he, she, mother, father, chairman, housewife, policeman, mankind
اس کے مطابق، مثال کے طور پر، یہ حکم دیا گیا کہ آئندہ ملک مین (milkman) کوڈیری پروڈکٹس ڈیلورر (dairy products deliverer) کہا جائے، وغیرہ ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹائمس آف انڈیا (یکم نومبر ۱۹۷۹) نے لکھا تھا کہ تذکیر و تانیث کو ختم کرنے کے بجائے وہ کیوں اس میں مشغول نہیں ہوتے کہ بھوک ، بے روزگاری اور بے امنی کو ختم کریں :
Rather than abolish gender, why don't they get busy with the abolition of hunger, unemployment and insecurity.
جو کام ضروری ہے ، اس میں کوئی اپنے آپ کو مشغول نہیں کرتا۔ البتہ جو کام غیر ضروری ہے اس میں ہر آدمی دوڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاح کے نام پر ہونے والی بے شمار سرگرمیوں کے باوجود حقیقی اصلاحی نیتجہ کہیں نظر نہیں آتا۔