خلائی تہذیب
بیسویں صدی کے نصف سے مغربی دنیا ایک انوکھی تحقیق میں مشغول ہے۔ خلا میں زندہ مخلوقات کی آواز کو سننا(Listening for life in space)۔ بہ ظاہر اس تلاش کا محرک جدیدعلماء کاوہ مفروضہ ہے، جس کو ارتقاکہاجاتا ہے۔ مغربی علما نے زندگی کی جو ارتقائی توجیہہ کی ہے، اس کے مطابق لازم آتا ہے کہ وسیع خلا میں دوسرے مقامات پر بھی اسی طرح زندگی کی انواع موجود ہوں، جس طرح وہ ہماری زمین پر پائی جاتی ہیں۔خلا میں سفر کا ایک خاص مقصد ان زندگیوں سے ملاقات ہے۔ اس مفروضے پر ان کو اتنا یقین ہے کہ اس کا ایک خاص نام بھی دے دیا گیا ہے، یعنی بالائے خلا زندگی (extraterrestrial life)۔
اس کے علاوہ امریکا میں اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں خاص طرح کے بہت بڑے بڑے اینٹینا (antenna) لگائے گئے ہیں، جن کو عام زبان میں ریڈیائی کان (radio ears) کہتے ہیں۔ ان مشینوں سے بالائے خلا میں سگنل بھیجے جاتے ہیں، اور حساس قسم کے آلات ہر وقت تیار رہتے ہیں کہ اوپر سے آنے والے متوقع سگنل کو سن سکیں۔ان کوششوں پر ٹائم میگزین( 21 مارچ 1983) میں ان الفاظ میں تبصرہ کیا گیا ہے— اگر تم واقعةً وہاں ہو تو اپنے دوستوں سے بولو:
If you are really there, please call your friends.
زمین پر زندگی اور شعور کا وجود ساری معلوم کائنات میں ایک انتہائی نادر اور استثنائی واقعہ ہے۔ چونکہ یہ شعور اپنا خالق آپ نہیں، اس لیے اس کا وجود لازمی طورپر تقاضا کرتا ہے کہ یہاں زندگی اور شعور کا ایک اور خزانہ زیادہ بڑی سطح پر موجود ہو، جو زمین کی زندگی اور شعور کا سرچشمہ ہو۔ حقیقت یہ ہےکہ زندہ انسان کی موجودگی زندہ خدا کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ جدید انسان اس امکان کو بالواسطہ انداز میں تسلیم کرتا ہے۔ البتہ وہ اس وجود کو خلائی زندگی قرار دے کر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ یہ وجود ہماری ہی طرح کا ایک وجود ہے، نہ کہ ہم سے برتر کوئی وجود۔ وہ محض ایک تہذیب ہے،نہ کہ کوئی خالق اور مالک خدا۔