سائنس توحید کی طرف

علم طبیعیات میں، نیوٹن کے بعد سے یہ سمجھا جاتا رہاہے کہ چار قسم کے قوانین یا طاقتیں ہیں، جو فطرت کے مختلف مظاہر کو کنٹرول کرتی ہیں:

1۔ قوت کشش (Gravitational Force)

2۔برقی مقناطیسی قوت (Electromagnetic Force)

3۔ طاقت ور نیو کلیر قوت (Strong Nuclear Force)

4۔ کمزور نیوکلیر قوت (Weak Nuclear Force

کشش کا قانون، ایک کہانی کے مطابق، نیوٹن نے اس وقت معلوم کیا جب کہ اس نے سیب کے درخت سے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا۔ ’’سیب اوپر کی طرف کیوں نہیں گیا، نیچے زمین پر کیوں آیا۔‘‘ اس سوال نے اس کو اس جواب تک پہنچایا کہ زمین میں، اور اسی طرح تمام دوسرے کروں میں، جذب وکشش کی قوت کار فرماہے۔ بعد کو آئن سٹائن نے اس نظریےمیں بعض فنی اصلاحات کیں۔ تاہم اصل نظریہ اب بھی سائنس میں ایک مسلّمہ اصولِ فطرت کے طور پر مانا جاتاہے۔ برقی مقناطیسی قانون کا تجربہ پہلی بار فریڈے (Michael Faraday [1791-1867]) نے 1831میں کیا۔ اس نے دکھایا کہ بجلی کی قوت اور مقناطیس کی قوت ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ مقناطیس اور حرکت کو یکجا کیا جائے تو بجلی پیداہوجاتی ہے، اور مقناطیس اور بجلی کی لہر کو یکجا کریں تو حرکت وجود میں آجاتی ہے۔

ابتدائی 50 سال تک تمام طبیعی واقعات کی توجیہہ کے لیے مذکورہ دو قوانین کافی سمجھے جاتے تھے۔ مگر موجودہ صدی کے آغاز میں جب ایٹم کے اندرونی ڈھانچے کی بابت معلومات میں اضافہ ہوا،اور یہ معلوم ہوا کہ ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات ہیں جو ایٹم کے اندر کام کررہے ہیں تو طبیعی نظریات میں تبدیلی شروع ہوگئی۔ یہیں سے طاقت ور نیوکلیر فورس اور کمزور نیو کلیر فورس کے نظریات پیداہوئے۔ ایٹم کا اندرونی مرکز (نیوکلیس) الکٹران سے گھرا ہوا ہے، جو کہ پروٹان نامی ذرات سے بہت زیادہ چھوٹے اور ہلکے ہیں۔ مگر مطالعہ بتاتا کہ ہر الکٹران وہی چارج رکھتا ہے، جو بھاری پروٹان رکھتے ہیں۔ البتہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ الکٹران میں منفی برقی چارج ہوتاہے، اور پروٹان میں مثبت برقی چارج۔ الکٹران ایٹم کے بیرونی سمت میں اس طرح گردش کرتے ہیں کہ ان کے اور ایٹم کے مرکز (نیوکلیس) کے درمیان بہت زیادہ خلا ہوتا ہے۔مگر منفی چارج اور مثبت چارج دونوں میں برابر برابر ہوتے ہیں، اور اس بنا پر ایٹم بحیثیت مجموعی برقی اعتبار سے نیوٹرل (neutral) اور قائم (stable) رہتا ہے۔

اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایٹم کا مرکز بطور خود قائم (stable) کیوں کر رہتا ہے۔ الکٹران اور پروٹان الگ الگ ہو کر بکھر کیوں نہیں جاتے۔ قائم رہنے (stability) کی توجیہہ طبیعیاتی طورپر یہ کی گئی ہے کہ پروٹان اور نیوٹران کے قریب ایک نئی قسم کی طاقتور قوتِ کشش موجود ہوتی ہے۔ یہ قوت ایک قسم کے ذرات سے نکلتی ہے جن کومیسن (Mesons)کہاجاتاہے۔ ایٹم کےاندر پروٹان اور نیوٹران کے ذرات بنیادی طور پر یکساں (identical)سمجھے جاتے ہیں۔ مقناطیس کے دو ٹکڑوں کو لیںاور دونوں کے یکساں رخ (ساؤتھ پول کو ساؤتھ پول سے یا نارتھ پول کو نارتھ پول سے) ملائیں تو وہ ایک دوسرے کو دور پھینکیں گے۔ اس معروف طبیعی اصول کے مطابق پروٹان اور نیوٹران کوایک دوسرے سے بھاگنا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ پروٹان اور نیوٹران ہر لمحہ بدلتے رہتے ہیں، اوراس بدلنے کے دوران میسن کی صورت میں قوت خارج کرتے ہیں، جوان کو جوڑتی ہے۔ اسی کا نام طاقت ور نیوکلیر فورس ہے۔ اسی طرح سائنس دانوں نے دیکھا کہ بعض ایٹم کے کچھ ذرات (نیوٹران میسن) اچانک ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال مثلاً ریڈیم میں پیش آتی ہے۔ ایٹم کے ذرات کا اس طرح اچانک ٹوٹنا طبیعیات کے مسلّمہ اصولِ تعلیل (causality) کے خلاف ہے۔ کیوں کہ پیشگی طورپر یہ نہیں بتایا جاسکتاکہ ایٹم کے متعدد ذرات میں سے کون سا ذرہ پہلے ٹوٹے گا۔ اس کا مدار تمام تر اتفاق پر ہے۔ اس مظہر کی توجیہہ کے لیے ایٹم میں جو پر اسرار طاقت فرض کی گئی ہے، اسی کا نام کمزور نیوکلیر فورس ہے۔ سائنس داں یہ یقین کرتے رہے ہیں کہ انھیں چار طاقتوں کے تعامل (interactions) سے کائنات کے تمام واقعات ظہور میں آتےہیں۔ مگر سائنس عین اپنی فطرت کے لحاظ سے ہمیشہ وحدت کی کھوج میں رہتی ہے۔ کائنات کا سائنسی مشاہدہ بتاتا ہے کہ پوری کائنات انتہائی ہم آہنگ ہو کر چل رہی ہے۔ یہ حیرت ناک ہم آہنگی اشارہ کرتی ہے کہ کوئی ایک قانون ہے، جو فطرت کے پورے نظام میں کار فرما ہے۔ چنانچہ طبیعیات مستقل طورپر ایک متحدہ اصول(unified theory)کی تلاش میں ہے۔ سائنس کا ’’ضمیر‘‘ متواتر اس جدوجہد میں رہتاہے کہ وہ قوانینِ فطرت کی تعداد کو کم کرے اور کوئی ایک ایسا اصولِ فطرت (principle of nature) دریافت کرے جو تمام واقعات کی توجیہہ کرنے والا ہو۔

آئن اسٹائن نے مذکورہ قوانین میں سے پہلے دو قوانین کشش اور برقی مقناطیسیت کے اتحاد (unification)کی کوشش کی، اور اس میں 25 سال سے زیادہ مدت تک لگا رہا،مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ کہاجاتاہے کہ اپنی موت سے کچھ پہلے اس نے اپنے لڑکے سے کہا تھاکہ میری تمنا تھی کہ میں اور زیادہ ریاضی جانتا تاکہ اس مسئلے کو حل کرلیتا۔

ڈاکٹر عبد السلام (1926-1996) اور دوسرے دو امریکی سائنس دانوں،شیلڈن لی گلاشو (Sheldon Lee Glashow [b. 1932]) اور وین برگ(Steven Weinberg [b. 1933]) کو 1979 میں طبیعیات کا جو مشترکہ نوبل انعام ملا ہے، وہ ان کی اسی قسم کی ایک تحقیق پر ہے۔ انھوں نے مذکورہ قوانین فطرت میں سے آخری دو قانون (طاقتور اور کمزور نیو کلیر فورس) کو ایک واحد ریاضیاتی اسکیم میں متحدکردیا۔ اس نظریے کا نام جی ایس ڈبلیو نظریہ (G-S-W Theory) رکھا گیا ہے۔ اس کے ذریعے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ دونوں قوانین اصلاً ایک ہیں۔ اس طرح انھوں نے چار کی تعداد کو گھٹا کر تین تک پہنچا دیا ہے۔

سائنس اگرچہ اپنے کو ’’کیاہے‘‘ کے سوال تک محدود رکھتی ہے، وہ ’’کیوں ہے‘‘ کے سوال تک جانے کی کوشش نہیں کرتی۔ تاہم یہ ایک واقعہ ہے کہ سائنس نے جو دنیا دریافت کی ہے، وہ اتنی پیچیدہ اور حیرت ناک ہے کہ اس کو جاننے کے بعد کوئی آدمی ’’کیوں ہے‘‘ کے سوال سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میکسویل (James Clerk Maxwell [1831-1879]) وہ شخص ہے، جس نے برقی مقناطیسی تعامل (electromagnetic interaction)کے قوانین کو ریاضی کی مساواتوں (equations) میں نہایت کامیابی کے ساتھ بیان کیا۔ انسان سے باہر فطرت کاجو مستقل نظام ہے اس میں کام کرنے والے ایک قانون کا انسانی ذہن کی بنائی ہوئی ریاضیاتی مساوات میں اتنی خوبی کے ساتھ ڈھل جانا اتنا عجیب تھاکہ اس کو دیکھ کر بولٹزمن بے اختیار کہہ اٹھا— کیا یہ خدا تھا جس نے یہ نشانیاں لکھ دیں جو دل میں حیرت انگیز خوشی بھر دیتا ہے :

Was it a God that wrote these signs, revealing the hidden and mysterious forces of nature around me, which fill my heart with quiet joy?

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom