معبود کی طلب
اندرن نکولائیف(Andriyan Grigoryevich Nikolayev) روس کا خلائی مسافر ہے۔ اس کی پیدائش1929 میں ہوئی، اور وفات 2004 میں ۔1962 میں اس نے پہلی مرتبہ خلا میں پرواز کیا۔ اس خلائی پرواز سےواپسی کے بعد 21 اگست 1962کو ماسکو میں اس نے ایک پریس کانفرنس میں حصہ لیا۔ اس کانفرنس میں اس نےاپنا خلائی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا:
جب میں زمین پر اترا تو میرا جی چاہتا تھا کہ میں زمین کو چوم لوں۔
انسان جیسی ایک مخلوق کے لیے زمین پر جو بے حساب موافق سامان جمع ہیں، وہ معلوم کائنات میں کہیں بھی نہیں۔ روسی خلا باز جب زمین سے دور خلا میں گیا تو اس نے پایا کہ وسیع خلا میں انسان کے لیے صرف حیرانی اور سرگشتگی ہے۔ وہاںانسان کے سکون اور حاجت براری کا کوئی سامان نہیں۔ اس تجربے کے بعد جب وہ زمین پر اترا تو اس کو زمین کی قیمت کا احساس ہوا، ٹھیک ویسے ہی جیسے شدید پیاس کے بعد آدمی کو پانی کی اہمیت کا احساس ہوتاہے۔ زمین اپنے تمام موافق امکانات کے ساتھ اس کو اتنی محبوب معلوم ہوئی کہ اس کا جی چاہا کہ اس سے لپٹ جائے اور اپنے جذباتِ محبت کو اس کے لیے نثار کردے۔
یہی وہ چیز ہے جس کو شریعت میں الٰہ بنانا کہاگیا ہے۔ آدمی خالق کونہیں دیکھتا، اس لیے وہ مخلوق کو اپنا الٰہ بنا لیتاہے۔ مومن وہ ہے جو ظاہر سے گزر کر باطن تک پہنچ جائے، جو اس حقیقت کو جان لے کہ یہ جو کچھ نظر آرہا ہے یہ کسی کا دیاہوا ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کسی برتر ہستی کا پیدا کیا ہوا ہے۔ وہ مخلوق کو دیکھ کر اس کے خالق کو پالے اور خالق کو اپنا سب کچھ بنا لے۔ وہ اپنے تمام بہترین جذبات کو خداکے لیے نثار کردے۔
روسی خلاباز پر جو کیفیت زمین کو پاکر گزری وہی کیفیت مزید اضافہ کے ساتھ آدمی پر خدا کو پاکر گزرنا چاہیے۔ مومن وہ ہے جو سورج کو دیکھے تو اس کی روشنی میں خدا کے نور کو پالے۔ وہ آسمان کی وسعتوں میں خدا کی لامحدودیت کا مشاہدہ کرنے لگے۔ وہ پھول کی خوشبو میں خدا کی مہک کو پائے، اور پانی کی روانی میں خدا کی بخشش کو دیکھے۔ مومن اور غیر مومن کا فرق یہ ہے کہ غیر مومن کی نگاہ مخلوقات میں اٹک کر رہ جاتی ہے، اور مومن مخلوقات سے گزر کر خالق (Creator) تک پہنچ جاتا ہے۔ غیرمومن مخلوقات کے حسن کو خود مخلوقات کا حسن سمجھ کر انھیں میں محو ہو جاتا ہے۔ مومن مخلوقات کے حسن میں خالق کے عجائبات (wonders) دیکھتا ہے،اور اپنے آپ کو خالق کے آگے ڈال دیتا ہے۔ غیرمومن کا سجدہ چیزوں کے لیے ہوتا ہے، اور مومن کا سجدہ چیزوں کے خالق کے لیے۔
خدا کی موجودگی کا تجربہ
اپالو 15 میں امریکا کے جو تین خلا باز چاند پر گئے تھے، ان میں سے ایک کرنل جیمز اِروِن (James Irwin [1930-1991]) تھے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگست 1972 کا وہ لمحہ میرے لیے بڑا عجیب تھا، جب میں نے چاند کی سطح پر قدم رکھا۔ میں نے وہاں خدا کی موجودگی (God’s presence) کو محسوس کیا۔ انھوں نے کہا کہ میری روح پر اس وقت وجدانی کیفیت طاری تھی، اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے خدا بہت قریب ہو۔ خدا کی عظمت مجھے اپنی آنکھوں سے نظر آرہی تھی۔ چاند کا سفر میرے لیے صرف ایک سائنسی سفر نہیں تھا، بلکہ اس سے مجھے روحانی زندگی نصیب ہوئی (ٹریبون 27 اکتوبر 1972)۔
کرنل جیمز ارون کا یہ تجربہ کوئی انوکھا تجربہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا نے جو کچھ پیدا کیا ہے،وہ اتنا حیرتناک ہے کہ اس کو دیکھ کر آدمی خالق کی صناعیوں (wonders)میں ڈوب جائے۔ تخلیق کے کمال میں ہر آن خالق کا چہرہ جھلک رہا ہے۔ مگر ہمارے گردوپیش جو دنیا ہے، اس کو ہم بچپن سے دیکھتے دیکھتے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس سے ہم اتنا مانوس ہوجاتے ہیں کہ اس کے انوکھے پن کا ہم کواحساس نہیں ہوتا۔ ہوا اور پانی اور درخت اور چڑیا غرض جو کچھ بھی ہماری دنیا میں ہے، سب کا سب حد درجہ عجیب ہے، ہر چیز اپنے خالق کا آئینہ ہے۔ مگر عادی ہونے کی وجہ سے ہم اس کے عجوبہ پن کو محسوس نہیں کر پاتے۔ مگر ایک شخص جب اچانک چاند کے اوپر اترا، اور پہلی بار وہاں کے تخلیقی منظر کو دیکھا تو وہ اس کے خالق کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے تخلیق کے کارنامے میں اس کے خالق کو موجود پایا۔
ہماری موجودہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں، یہاں بھی ’’خدا کی موجودگی‘‘ کا تجربہ اسی طرح ہوسکتا ہے، جس طرح چاند پہنچ کر کرنل اِروِن کو ہوا۔ مگر لوگ موجودہ دنیا کو اس استعجابی نگاہ سے نہیں دیکھ پاتے، جس طرح چاند کا ایک نیامسافر چاند کو دیکھتا ہے۔اگر ہم اپنی دنیا کو اس نظر سے دیکھنے لگیں تو ہر وقت ہم کو اپنے پاس ’’خدا کی موجودگی‘‘ کا تجربہ ہو۔ ہم اس طرح رہنے لگیں جیسے کہ ہم خدا کے پڑوس میں رہ ہے ہیں اور ہر وقت وہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
اگر ہم ایک اعلی درجے کی مشین کو پہلی بار دیکھیں تو فی الفور ہم اس کے ماہر انجینئر کی موجودگی کو وہاں محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم دنیا کو اور اس کی چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھ سکیں تو اسی وقت ہم وہاں خدا کی موجودگی کو پالیں گے۔ کائنات کی ہر تخلیق خالق کے وجود کی گواہی دیتی ہے۔
موجودہ دنیامیں انسان کی سب سے بڑی یافت یہ ہے کہ وہ خدا کو دیکھنے لگے، وہ اپنے پاس خدا کی موجودگی کو محسوس کرلے۔ اگر آدمی کا احساس زندہ ہو تو سورج کی سنہری کرنوں میں اس کو خدا کا نور جگمگاتاہوا دکھائی دے گا، ہرے بھرے درختوں کے حسین منظر میں وہ خدا کا روپ جھلکتا ہوا پائے گا۔ ہواؤں کے لطیف جھونکے میں اس کو لَمسِ ربانی(divine touch) کا تجربہ ہوگا۔ اپنی ہتھیلی اور اپنی پیشانی کو زمین پررکھتے ہوئے اس کو ایسا محسوس ہوگا گویا اس نے اپنا وجود اپنے رب کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔ خدا اپنی قدرت اور رحمت کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، بشرطیکہ دیکھنے والی نگاہ آدمی کو حاصل ہوجائے۔