دعوتی عمل کی منصوبہ بندی

شیخ ریاض موسی ملیباری صاحب سے پہلی بار جامعہ دارالسلام عمرآباد میں تعارف ہوا،جب کہ وہ جگہ جگہ مسلمانوں کی دعوتی ذہن سازی کے لیے سفر کیا کرتے تھے۔ اتفاقاً جس سال میری فراغت ہوئی اسی سال باقاعدہ طور پر جامعہ دارالسلام میں ایک سالہ دعوتی کورس کا اعلان کیا گیا، جس میں دعوتی تربیت اور دعوتی دوروں کی ذمہ داری خود شیخ ریاض موسی صاحب نے لے لی۔ دعوت کو بطور ترجیحی سرگرمی کے اپنانے کا ذہن،اور اس کو عملاً امت میں جاری کرنے کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے، وہ میں نے شیخ ریالو صاحب سے سیکھا ہے۔

میرا پہلا دعوتی دورہ 1996میں شیخ ریالو صاحب کے ساتھ شہر آمبور(ضلع ترپاتور، تامل ناڈو) کی مسجد محی الدین پورہ میں ہوا۔اس میں بلیک بورڈ کے ذریعے سے دعوت کے متعلق دروس دیے گئے، جس میں مسلمانوں کو غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کی ترغیب دی گئی۔ غیر مسلموں میں دعوت کے عنوان سے مسجد واری اور مدرسہ واری تحریک جاری کرنے کےلیے شیخ ریالو صاحب زندگی بھر کوششیں کرتے رہے، جس کے سبب ہندوستان میں ایک دعوہ ٹیم وجود میں آئی، جو دعوتی مشن کو لے کر جگہ جگہ جایا کرتی ہے، یعنی دعوتی سیاحت کا عمل وجود میں آیا۔

ریالو صاحب کہا کرتے تھے کہ جس دن امت مسلمہ سے چند افراد دعوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے،خاص طور پر تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے حضرات کام کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے تو اس دن میں واپس کیرالا چلاجاؤں گا۔ غالباً 2004میں شیخ ریالو صاحب کے ساتھ منگلور (کرناٹکا) گیا، وہاں ان کے ساتھی ڈاکٹر حبیب الرحمن سے ملاقات ہوئی۔ڈاکٹر صاحب نے ریالو صاحب سے سوال کیا کہ آج کل آپ کیا کررہے ہیں۔تو انہوں نے جواب دیا کہ دیکھیے مولوی حضرات کو دین کے سب کام آتے ہیں سوائے غیر مسلموں میں دعوت کے، میں آج کل مدارس کا دورہ کرکےعلما حضرات کو غیر مسلموں میں دعوت دین کا عملی طریقہ سکھارہا ہوں۔

شیخ ریالو صاحب کے ذریعے سے میرے اندر دعوتی شعور پیدا ہوا، آپ کی تربیت اور صحبت کے نتیجے میں دعوت کو میں نے اپنی زندگی میں پرائمری کنسرن بنایا۔ مگر میرے ذہن ودماغ میں دعوتی میدان کے اصولی اور علمی تقاضوں کے متعلق بہت سے سوالات تھے،مثلاً اعلی تعلیم یافتہ طبقے میں کام کیسے کیاجائے،دورِ جدید کی نسبت سے دعوتی تقاضےکیا ہیں ؟اسی طرح یہ کہ سائنسی ایج میں علم وایمان کے اثبات میں جو دلائل وجود میں آئے ہیں ان کو دریافت کرنے کا ذہن، مدعو سے یک طرفہ خیر خواہی کرنا، غیرمسلم حضرات کے سارے ہی طبقات کے ساتھ صرف دعوتی سلوک کو صحیح سمجھنا، ملاءِقوم کے ساتھ ناصحانہ رویہ اختیار کرنا، وغیرہ۔

یہ اور اس قسم کے اور بھی سوالات تھے، جن کے لیے مجھے رہنمائی کی ضرورت تھی۔اللہ کے فضل سے الرسالہ مشن کے ذریعے اس کی تلافی ہوگئی۔ میں نے جس دعوتی جذبے کے تحت ریاض موسی صاحب کا ساتھ دیا تھا، اسی جذبے کے تحت میں نے الرسالہ مشن کو بھی اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالی شیخ ریالو صاحب کی مغفرت فرمائے،اور ہم سب کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔(مولانا سید اقبال احمد عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom