ذہین وجود
موجودہ زمانے کے سائنس دانوں جن چیزوں کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک ایلین (alien)تہذیب ہے۔ زمین پر انسانی تہذیب کے علاوہ کیا خلا میں کوئی اور تہذیب ہے، جو ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ پچھلے 25 برسوں کے سائنسی مطالعے نے کافی حد تک یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ کائنات میں ہمارے علاوہ دوسری ’’ٹکنکل سولائزیشن‘‘ بھی ہوسکتی ہے۔
اس قیاس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس دانوں کو کائنات میں ماورائی ذہانت (extraterrestrial intelligence) کے آثار ملے ہیں۔ ان آثار کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ خدا کے وجود پر لوگوں کا یقین بڑھتا، مگر غیر خدا پرستانہ ذہن کا یہ کرشمہ ہے کہ وہ ماورائی ذہانت کو انسانی ذہانت سمجھ رہے ہیں۔ جو حقیقۃً خدا کا وجود ثابت کررہی ہے، اس کو اس معنی میں لے رہے ہیں کہ کائنات میں کسی سیارہ پر انسانی تہذیب جیسی کوئی اور تہذیب موجود ہے۔ حالاں کہ کائنات میں ’’ذہانت‘‘ کے آثار کا ملنا، اور ذہانت کا نظر نہ آنا، یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ذہانت اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر انسانی اور غیر مرئی ہے، نہ کہ انسان کی طرح دکھائی دینے والی۔
ایک امریکی عالم حیاتیات (Cecil Boyce Hamann [1913-1984])کہتے ہیں: ’’غذا ہضم ہونے اور اس کے بدن کا جزءبننے کے حیرت انگیز عمل کو پہلے خدا کی طرف منسوب کیاجاتا تھا۔ اب جدید مشاہدے میں وہ کیمیائی ردّ ِعمل کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ مگر کیا اس کی وجہ سے خدا کے وجود کی نفی ہوگئی۔ آخر وہ کون طاقت ہے جس نے کیمیائی اجزا، کو پابند کیا کہ وہ اس قسم کا مفید ردّ عمل ظاہر کریں۔ غذا انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک عجیب وغریب خود کار انتظام کے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتی ہے، اس کو دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل خارج از بحث معلوم ہوتی ہے کہ یہ حیرت انگیز انتظام محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مشاہدے کے بعد تو اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ خدا اپنے ان عظیم قوانین کے ذریعے عمل کرتا ہے جس کے تحت اس نے زندگی کو وجود دیا ہے۔‘‘
(The Evidence of God in an Expanding Universe, p. 221)