عقیدۂ خدا اور سائنس

سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے عین اسی علم فطرت کا ظہور ہے، جس کی خبر پیشگی طورپر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے— (ترجمہ) ہم لوگوں کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اورانفس میں ۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے (41:53)۔ سائنس کی جدیدتحقیقات کی روشنی میں کائنات کی جو نئی تصویر بنی ہے، وہ عین وہی ہے، جو قرآن میں پیشگی طورپر بتا دی گئی تھی۔ اس اعتبار سے جدید سائنسی دریافتیں گویا کتابِ الٰہی کے اشارات کی تفصیل ہیں، اور اسی کے ساتھ اس کی دلیل بھی۔ یہاں مختصر طورپر ان کا ذکر کیاجاتاہے۔جدید دریافت کے مطابق، کائنات کی ابتدا تقریباً13.8 بلین سال پہلے ہوئی۔ اس کے بعد مختلف تدریجی انقلابات سے گزرتےہوئے وہ اپنی موجودہ حالت تک پہنچی۔ اس پورے سفر کی روداد اس موضوع کی کتابوں میں پڑھ کر معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو محسوس طور پر کسی سائنسی پلینٹیریم (Planetarium) میں دیکھا جاسکتاہے۔ میں نے یہ پورا منظر واشنگٹن کے نیشنل پلینٹیریم میں دیکھا ہے۔

سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ13.8 بلین سال پہلے خلا میں ایک سپر ایٹم ظاہر ہوا۔ یہ ان تمام ذرات (particles) کا مجموعہ تھا،جو موجودہ کائنات میں پائے جاتے ہیں۔ گویا موجودہ پوری کائنات ایک بہت بڑے فٹ بال جیسے گولے کی صورت میں شدت کے ساتھ باہمی طورپر چمٹی ہوئی تھی۔ اس گولے کے تمام ذرات بے حد طاقت ور کشش کے ساتھ ایک دوسرے سے داخلی طورپر جڑے ہوئے تھے۔ معلوم طبیعیاتی قانون کے مطابق، یہ ناممکن تھاکہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو کر بیرونی سمت میں سفر کریں۔اس وقت اس سُپر ایٹم کے اندر نہایت طاقتور دھماکہ ہوا۔ اس دھماکہ کے فوراً بعد سپر ایٹم کے ذرات بکھر کر تیزی سے بیرونی سمت میں سفر کرنے لگے۔ اس کے بعد یہ ذرات وسیع خلا میں مختلف مجموعوں کی صورت میں اکٹھا ہوگئے۔ انھیں مجموعوں سے خلامیں پائی جانے والی وہ دنیائیں بنیں، جن کو ستارہ، سیارہ، کہکشاں، شمسی نظام، زمین اور چاند جیسے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔

سپر ایٹم کا یہ دھماکہ بیک وقت دو چیزیں ثابت کرتا ہے۔ایک یہ کہ یہاں کائنات سے الگ ایک طاقتور ہستی پہلے سے موجود تھی، جس نے اپنی ارادی مداخلت کے ذریعے یہ غیر معمولی واقعہ کیا کہ سپر ایٹم کے ذرات داخلی رخ پر سفر کے بجائے بیرونی رُخ پر سفر کرنے لگے۔

اس واقعے کا دوسرا عظیم پہلو یہ ہے کہ دھماکہ (explosion)ہمیشہ تخریبی نتائج کا سبب بنتا ہے۔ پٹاخہ سے لے کر بم تک ہر دھماکہ بلا استثنا یہی خاصیت رکھتا ہے۔ مگر سُپر ایٹم کا دھماکہ استثنائی طورپر غیر تخریبی تھا۔ اس نے مکمل طورپر صرف صحت مند اور تعمیری نتائج پیدا کیے۔ یہ استثنائی واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کائنات کا خالق لامحدود قدرت کا مالک ہے۔ وہ یہ استثنائی اختیار رکھتا ہے کہ واقعے کے ساتھ نتائج پر مکمل کنٹرول کرسکے۔مطالعہ بتاتاہے کہ ہماری کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات (expanding universe) ہے۔ وہ غبارہ کی مانند مسلسل طورپر بیرونی سمت میں پھیل رہی ہے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ کائنات کا ایک متعین آغاز ہے۔ اگر کائنات ابدی ہوتی تو وہ اپنی اس پھیلتی ہوئی نوعیت کی بنا پر اب تک ختم ہوچکی ہوتی۔ یہ ثابت ہوناکہ کائنات کا ایک آغاز ہے، یہ بھی ثابت کردیتا ہے کہ اس کا کوئی آغاز کرنے والا ہے۔ ایک غیر موجودہ چیز کا آغاز اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اس سے پہلے کوئی موجود ہو، جو اپنے ارادے سے اُس کا آغاز کرسکے۔

کائنات میں ایسے بے شمار شواہد ہیں جو یہ ثابت کرتےہیں کہ کائنات کا منصوبہ ساز اوراس کا ناظم صرف ایک ہے۔ اگر ایک سے زیادہ ناظم ہوتے تو یقینی طورپرکائنات میں فساد برپا ہوجاتا۔

مثال کے طورپر زمین اور سورج کا فاصلہ تقریباً 9کرور 30 لاکھ میل ہے۔ یہ فاصلہ مسلسل طورپر اپنی حالت پر برقرار رہتا ہے۔ اگر اس فاصلہ میں تبدیلی آجائے تو اس کے مہلک نتائج پیدا ہوں گے۔ مثلاً اگر یہ فاصلہ بڑھ کر 20 کرور میل دور ہوجائے تو زمین پر اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ پانی، حیاتیات، حیوانات اور انسان سب منجمد ہوجائیں۔ اسی طرح یہ فاصلہ اگر کم ہو کر 5کرور میل ہوجائے تو زمین پر اتنی گرمی پیداہو کہ تمام چیزیں بشمول انسان جل کر ختم ہوجائیں۔

اس سے ثابت ہوتاہے کہ سورج اور زمین دونوں کا خدا ایک ہے۔ اگر دونوں کے خدا الگ الگ ہوتے تو دونوں الگ الگ اپنی مرضی چلاتے اور پھر یقینی طورپر یہ فاصلہ گھٹتا یا بڑھتا رہتا اوراس بے قاعدگی کی بنا پر زمین پر انسانی تہذیب کا وجود ناممکن ہوجاتا۔

نامعلوم حد تک وسیع کائنات میں ہمارا زمینی سیارہ ایک نادر استثنا ہے۔ یہاں پانی اور ہوا اور نباتات جیسی ان گنت چیزیں پائی جاتی ہیں جو انسانی زندگی کے لیے لازمی طور پر ضروری ہیں۔ جب کہ وسیع خلا میں معلوم طورپر کوئی بھی ایسی دنیا موجود نہیں جہاں بقائے حیات کا یہ سامان پایا جاتاہو۔ یہ استثنا بتاتا ہے کہ یہ دنیا محض بے شعور مادہ کے ذریعہ نہیں بنی۔ بلکہ وہ ایک باشعور ہستی کا تخلیقی کرشمہ ہے۔ اگر وہ محض مادی قوانین کے بے شعور تعامل کا نتیجہ ہوتی تو کائنات میں بہت سی ایسی زمینیں ہوتیں،نہ کہ صرف ایک ایسی زمین۔

ہماری دنیا کی ہر چیز انتہائی حد تک با معنی ہے۔ چیزوں کی معنویت یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ دنیا ایک باشعور تخلیق کا نتیجہ ہے۔ کوئی دوسرا نظریہ اس حکمت اور معنویت کی توجیہہ نہیں کرسکتا۔ مثلاً زمین کے حجم (size) کو لیجیے۔ زمین کا موجودہ حجم تقریباً 25 ہزار میل کی گولائی میں ہے۔ یہ حجم بے حد با معنی ہے۔ چنانچہ یہ حجم اگر 50ہزار میل ہوتا تو زمین کی کشش اتنی زیادہ بڑھ جاتی کہ وہ انسانی جسم کی بڑھوتری کو روک دیتی۔ اس کے بعد زمین پر صرف بالشتیے قسم کے انسان (dwarf) دکھائی دیتے۔ اس کے برعکس اگر زمین کا حجم گھٹ کر 12 ہزار میل ہوتا تو اس کی قوتِ کشش اتنی کم ہوجاتی کہ وہ انسانی بڑھوتری کو روک نہ سکتی۔ انسان کا قد تاڑ (palm)کی طرح لمبا ہوجاتا۔ اس کے سوا اور بےشمار قسم کے غیر موافق حالات پیدا ہوتے جوانسان کی تمام تمدنی ترقیوں کو ناممکن بنا دیتے۔

مذکورہ پہلوؤں پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی اعتبار سے، یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس دنیا کا ایک خالق ہے، اور وہ یقینی طورپر صرف ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارے لیے جوانتخاب ہے، وہ با خدا کائنات (universe with God) اور بے خدا کائنات (universe without God) میں نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے لیے حقیقی انتخاب باخدا کائنات (universe with God) اور غیر موجود کائنات (no universe at all) میں ہے۔ یعنی اگر ہم خدا کے وجود کا انکار کریں تو ہم کو کائنات کے وجود کابھی انکار کرنا پڑے گا۔ چوں کہ ہم کائنات کے وجودکا انکار نہیں کرسکتے اس لیے ہم خدا کے وجود کا بھی انکار نہیں کرسکتے۔ اس معاملے میں ہمارے لیے دوسرا ممکن انتخاب موجود نہیں ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom