خدا ترس شخصیت

شیخ ریاض موسی ملیباری عرف ریالو صاحب دعوت الی اللہ کے میدان میں میرے ابتدائی معلم و مربی تھے۔ آپ کے ساتھ مجھے کئی اسفار کے مواقع ملے۔ جن کے ذریعے میں نے ریالو صاحب کو بہت قریب سے جانا ہے۔ ریالو صاحب ایک planner اور خدا ترس انسان تھے۔ وہ لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرتے تھے، خدا اور آخرت کے ذکر پر خوب رویا کرتے تھے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنا زیادہ خدا اور آخرت کی یاد پر رویا کرتے تھے۔

اگست2001 کی بات ہے کہ ریالو صاحب کے ساتھ میرا ایک سفر دہلی کا ہوا، جس میں ہمارے ساتھ مولانا فیاض الدین عمری (گلبرگہ)بھی تھے۔ جب ہم دہلی پہنچے تو سب سے پہلا پروگرام مولاناوحیدالدین خاں سے ملاقات کا بنا۔ مولانا فیاض عمری نےآپ سےفون پر ملاقات کا ٹائم لیا، اور ہم لوگ آپ سے ملنے کی تیاری کرنے لگے۔اس وقت شیخ ریالو صاحب نے مولانا فیاض الدین عمری سے پوچھا کہ ہم ایک بڑے عالم سے ملنے جا رہے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ ان کو کوئی اچھا تحفہ (gift)دوں، آپ مشورہ دو کہ ان کے لیے کون ساتحفہ مناسب ہوگا تو مولانا فیاض صاحب نے بتایا کہ میں نے مولانا وحید الدین صاحب کی ایک ڈائری میں پڑھا ہے کہ ان کو قلم اور مسواک پسند ہیں۔ ریالو صاحب نے ایک اچھا قلم اور مسواک آپ کو تحفہ میں دینے کے لیے خریدا۔

اس کے بعد ہم لوگ مولانا وحید الدین خاں صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے آفس (نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) پہنچے۔ جب ملاقات ہوئی تو ریالو صاحب نے مولانا کو یہ دونوں تحفہ پیش کیا،اور کہا کہ ہمارے شاگرد فیاض الدین عمری (گلبرگہ،کرناٹک)نے بتایا کہ آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ آپ کو قلم اور مسواک پسند ہے۔ اسی لیے ہم نے آپ کو یہ تحفہ پیش کیا ہے۔

اس وقت مولانا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ میں نے ایسا لکھا ہے۔ مگر یہ میری ایک پرانی بات ہے، لیکن آج کل میں کچھ اور سوچتا رہتا ہوں۔تو ریالو صاحب نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ تو مولانا نے کہا کہ میں اب اپنی عمر کی آخری منزل پر پہنچ چکا ہوں پتہ نہیں کہ کب موت کا فرشتہ مجھے لینے آجائے اور اللہ کے سامنے حاضر کردے۔ میں خدا کے سامنے حاضر ہوکر اپنی نجات کے لیے کیا پیش کرسکتا ہوں۔

اگر میں یہ کہوں کہ میں نے اسلام پر اتنی کتابیں لکھی ہیں تو ان کی قیمت خدا کے پاس کیا ہوسکتی ہے جب کہ ایک دیا سلائی ان کتابوں کو جلاکر راکھ میں تبدیل کرنے کے لیے کافی ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے ایک بار یہ کہا تھا:لَنْ یُدْخِلَ أَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہُ الْجَنَّةَ۔ قَالُوا:وَلَا أَنْتَ؟ یَا رَسُولَ اللہِ قَالَ:وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللہُ مِنْہُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَةٍ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2816)۔ یعنی تم میں سے کسی کو اس کا عمل ہرگزجنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے کہا:آپ بھی نہیں، اے خدا کے رسول؟ آپ نے کہا:میں بھی نہیں۔ سوا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانک لے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ اپنے عمل سے نہیں بلکہ خدا کی رحمت سے جنت پائیں گے تو میری اور میری کتابوں کی حیثیت کیا ہوگی۔ بس میں اسی سوچ میں رہتا ہوں کہ میں خدا کی رحمت کا کیسے مستحق بن سکتا ہوں۔ یہ کہہ کر مولانا روئے جارہے تھے، اور مولانا کے ساتھ شیخ ریالو صاحب بھی زار و قطار رونے لگے۔

یہ ملاقات تقریباً ایک گھنٹے کی رہی، جس میں مولانا آخرت کی باتیں کرتے رہے اور شیخ ریالو صاحب روتے رہے۔ یہ پوری ملاقات رونے پر ہی ختم ہوگئی۔اس واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے ریالو صاحب خدا اور آخرت کے ذکر پر رویا کرتے تھے بلکہ میں نے ان کو بہت سی راتوں میں تہجد کے وقت روتے ہوئے پایا ہے۔ یہ تھی شیخ ریالو صاحب کی خداترس شخصیت۔ اللہ سے دعا ہے کہ خدا ان کی گریہ و زاری کو قبول فرماکر ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔ (مولانا خطیب اسرار الحسن عمری،چنئی)

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom