بامعنی کائنات

اندازہ کیا گیا ہے کہ ہماری قریبی کہکشاں ایک لاکھ سال نور (light years)کی وسعت میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کہکشاں کے اندر تین لاکھ ملین ستارے پائے جاتے ہیں۔ ہمارا شمسی نظام اس کے مرکز سے 27 ہزار سال نور کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہکشاں کے اکثر ستارے ممکن طور پر کسی نہ کسی قسم کے سیاروں (planets)کا سلسلہ رکھتے ہیں۔ مگر ان میں سے اکثر سیارے زندگی کے لیے غیر موزوں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ستارے سے یا تو بہت زیادہ قریب ہیں یا بہت زیادہ دور ہیں۔ تاہم چوں کہ ستاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، خالص حسابی اعتبار سے یہ امکان ہے کہ بہت سے سورج جیسے ستارے ہوں، اور اسی طرح بہت سے زمین جیسے سیارے:

It is estimated that our Milky Way galaxy, which is 100,000 light years across, is composed of over 300,000 million stars. Our solar system is situated 27,000 light years away from the centre. Most of the stars are likely to have planets of some sort. But most of these planets will be unsuitable for life, because they are either too near or too far from their parent star. Yet because the number of stars is so great, there must, by sheer statistical probability, be many sun-like stars and earth-like planets. (The Hindustan Times, July 31, 1986, p. 9)

تاہم بے شمار سیاروںمیں صرف زمین واحد سیارہ ہے، جہاںلائف سپورٹ سسٹم (life support system)پایا جاتا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کیا ہے۔ وہ فطری اسٹرکچر اور نظام، جس کے ذریعے زندگی کے لیے لازمی چیزیں مہیا کی جاتی ہیں۔ مثلاً آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، کھانا، پانی، ناکارہ اشیا کی نکاسی، ٹمپریچر اور دباؤ کو مینج کرنا، وغیرہ:

The natural structures and systems that provides all of the elements essential for maintaining physical well being, as for example, oxygen, carbon dioxide, food, water, disposal of body wastes, and control of temperature and pressure, etc.

اسی فطری نظام کی وجہ سے زمین انسانوں جیسی زندہ مخلوق کے لیے قابلِ رہائش ہے۔ اس قسم کا کوئی اور سیاراتی نظام ابھی تک ساری کائنات میں معلوم نہ کیا جاسکا۔ موجودہ زمانے میں سائنس کا ایک مستقل شعبہ وجود میں آیا ہے، جس کو ایس ای ٹی آئی(SETI) کہاجاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے — بالائے خلا ذہانت کی تلاش :

Search for Extra-Terrestrial Intelligence

زندگی کے ارتقائی نظریے کے تحت سائنس دانوں کا گمان ہے کہ کائنات کے دوسرے مقامات پر بھی انسان جیسی ذہین مخلوق ہونی چاہیے۔ کیوں کہ ارتقائی عمل عموم چاہتا ہے، ارتقائی عمل میں استثناکے لیے کوئی جگہ نہیں ۔اس فرضی قیاس پر جدید انسان کو اتنا زیادہ یقین ہے کہ ایک امریکن سائنسی مصنف اسحاق اسیمو (Isaac Asimov [1920-1992]) نے حساب لگا کر اعلان کیا ہے کہ ہماری کہکشاں میں چار سو ملین سیارے ایسےہیں، جن میں پودے اور جانور پائے جاتے ہیں یا پائے جاسکتے ہیں۔ مگر یہ سب کا سب محض حسابی قیاس ہے۔

سورج ایک اوسط درجے کا ستارہ ہے۔ اس کا قطر(diameter) آٹھ لاکھ 65 ہزار میل ہے۔ وہ ہماری زمین سے تقریباً بارہ لاکھ گُنا بڑا ہے۔ سورج کی سطح پر جو حرارت ہے اس کا اندازہ بارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ ٹمپریچر کیا گیا ہے۔ زمین سے سورج کا فاصلہ تقریباً نو کرور 30 لاکھ میل ہے۔ یہ فاصلہ حیرت انگیز طورپر مسلسل قائم ہے۔ یہ واقعہ ہمارے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اگر یہ فاصلہ گھٹ یا بڑھ جائے تو زمین پر انسان جیسی مخلوق کی آبادکاری ناممکن ہوجائے۔مثلاً اگر ایسا ہو کہ سورج نصف کے بقدر ہم سے قریب ہوجائے تو زمین پر اتنی گرمی پیدا ہو کہ اس کی شدت سے کاغذ جلنے لگے۔ اس کے برعکس، اگر زمین اور سورج کا موجودہ فاصلہ دگنا سے زیادہ ہوجائے تو اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ زمین پر زندگی جیسی چیز باقی نہ رہے۔ یہی صورت اس وقت پیدا ہوگی، جب کہ موجودہ سورج کی جگہ کوئی دوسرا غیر معمولی ستارہ آجائے۔ مثلاً ایک ستارہ ہے، جس کی گرمی ہمارے سورج سے اسی ہزار گنا زیادہ ہے، اگر وہ سورج کی جگہ ہوتا تو پوری زمین کو آگ کی بھٹی بنا دیتا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom