یہ نمبر موجود نہیں
آپ اگر اپنے ٹیلی فون پر کسی شخص کا نمبر ڈائل کریں اور کوئی غلط بٹن دب جائے تو آپ کی کال مطلوب شخص تک نہیں پہنچے گی۔ آپ کو دوسری طرف سے ہیلو کی آوازنہیں آئے گی بلکہ کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے تحت یہ ہوگا کہ ٹیلی فون اکسچینج سے ریکارڈ کی ہوئی آواز سنائی دے گی۔ ۳۱ اکتوبر ۲۰۰۴ کو میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ میں نے اپنے ٹیلی فون پر دہلی کے ایک صاحب کا نمبر ڈائل کیا۔ دوسری طرف سے یہ آواز سنائی دی—یہ نمبر موجود نہیں ہے:
This number does not exist.
اکسچینج کی یہ آواز سن کر اچانک میرے ذہن میں خیالات کا ایک طوفان برپا ہوگیا۔ میں نے سوچا کہ اس مادی واقعہ میں ایک بہت بڑا روحانی سبق موجود ہے۔ وہ یہ کہ اگر کوئی انسان خدا سے ربط قائم کرنا چاہے اور وہ اپنے غلط ذہن کی بنا پر خدا کے سوا کسی اور کو اپنا خدا سمجھ بیٹھے اور خدا سمجھ کر اس کو پکارنے لگے تو اس کے ساتھ بھی یہی ہوگا کہ براہِ راست خدا کی طرف سے تو اس کو کوئی جواب نہیں ملے گا۔ البتہ ایک اور آواز اس کو سنائی دے گی جو اس سے کہہ رہی ہوگی کہ تم نے جس خدا کو پکارا ہے وہ خدا سرے سے موجود نہیں:
This God does not exist
خدا کی طلب انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ ہر انسان پیدائشی طورپر خدا کو پانا چاہتا ہے۔ مگر تاریخ میں ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں نے وہ غلطی کی جس کو شرک کہا جاتا ہے۔ حقیقی خدا کو پالینے کا نام توحید ہے اور حقیقی خدا کے سوا دوسری چیز کو خدا کا درجہ دے کر اس سے قلبی تعلق قائم کرنا شرک ہے۔ حقیقی خدا سے رشتہ قائم ہونا انسان کے لیے سب سے بڑی رحمت ہے۔ جس عورت یا مرد کا رشتہ خدا کے ساتھ قائم ہوجائے اس کی زندگی میں ہدایت کا نور آجائے گا۔ اس کے اندر ربّانی شخصیت پیدا ہوگی۔ اس کو ذہنی ارتقاء کا اعلیٰ درجہ حاصل ہوگا۔ اس کے برعکس جو شخص شرک میں مبتلا ہو وہ اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔
موجودہ زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی خدا کا نام لیتا ہے۔ ہر آدمی کسی نہ کسی چیز کو خدا کا درجہ دے کراس کو اپنا لیتا ہے۔ مگر جہاں تک خدا کی رحمت اور رباّنی شخصیت کا تعلق ہے، اس کا کہیں وجود نہیں۔ اس کا سبب واضح طورپر یہی ہے کہ لوگ غیرخداؤں کو اپنا خدا بنائے ہوئے ہیں۔وہ کسی نہ کسی غیر خدا کو ٹیلی فون کررہے ہیں۔ مگر جواب میں ہر ایک کے پاس یہ آواز آرہی ہے کہ جو نمبر تم نے ڈائل کیا ہے وہ نمبر موجود نہیں، جس کو تم خدا سمجھ کر پکاررہے ہو اس خدا کا کہیں وجود ہی نہیں، اس لیے تم کو اس کی طرف سے کوئی جواب بھی ملنے والا نہیں۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیاہے:
سچا پکارنا صرف خدا کے لیے ہے۔ اور اس کے سوا جن کو لوگ پکارتے ہیں وہ ان کی اس سے زیادہ داد رسی نہیں کرسکتے جتنا پانی اس شخص کی کرتا ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو تاکہ وہ اس کے منھ تک پہنچ جائے اور وہ اس کے منھ تک پہنچنے والا نہیں۔ اور منکرین کی پکار سب بے فائدہ ہے (الرعد ۱۴)
ہر آدمی کی یہ پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ حقیقی خدا کو دریافت کرے اور پھر یہ معلوم کرے کہ اس خدا سے ربط قائم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ اس دریافت کے بغیر انسانی زندگی نہ صرف نامکمل ہے بلکہ وہ یقینی طور پر تباہی کے انجام سے دوچار ہونے والی ہے۔ یہی کسی انسان کا سب سے بڑا مقصد ہے، یہی انسان کی جدوجہد کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسانی زندگی کو بامعنی بناتی ہے۔ جس انسان کی زندگی اس دریافت سے خالی ہو وہ بلاشبہہ سب سے بڑا مفلس ہے، خواہ بظاہر اس نے مادی چیزوں کا ڈھیر اپنے گرد اکھٹا کرلیا ہو۔
مزید سنگین بات یہ ہے کہ کسی انسان کو یہ موقع صرف قبل ازموت مدت حیات میں ملتا ہے۔ بعد ازموت کی مدت حیات میں کسی انسان کو یہ موقع ملنے والا نہیں۔ انسان کے لیے اُس کے خالق کا بنایا ہوا قانون یہ ہے—موت سے پہلے کی زندگی میں کرنا، اور موت کے بعد کی زندگی میں صرف بھگتنا۔