تعلیم کی طرف

بی بی سی لندن کے اردو شعبہ کی ایک ٹیم نے انڈیا کی ریاست گجرات کا دورہ کیا۔ وہاں اس نے خاص طورپر گجرات کے مسلمانوں سے ملاقات کی اور اس موضوع پر ایک رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ کا ایک حصہ میں نے ۲۲ جولائی ۲۰۰۴ کو بی بی سی لندن کے نشریہ میں سنا۔ اس نشریہ میں بتایا گیا تھا کہ ریاست میں پچھلے فرقہ وارانہ فساد فروری۔مارچ ۲۰۰۲ کے بعد گجرات کے مسلمانوں میں بڑے پیمانہ پر ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ اب یہاں کا ہر مسلمان تعلیم کے بارے میں سوچتا ہے۔ ہر ایک یہ کہہ رہا ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھاؤ۔

یہ ایک نیا رجحان ہے۔ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستانی مسلمانوں میں مسلسل طورپر ایک ہی ذہن پایا جارہا تھا۔ وہ تھا شکایت اور احتجاج اور تشدد کا جواب تشددسے دینا۔ نصف صدی سے زیادہ مدت کے تجربہ کے بعد یہ نظریہ ناکام ثابت ہوا۔ اب پہلی بار مسلمانوں میں یہ طرزِ فکر پیدا ہوا ہے کہ جوابی ذہن کے تحت سوچنا اور ماضی کے تلخ تجربوں میں جینا ایک بے فائدہ کام ہے۔ اب وہ پہلی بار پیچھے کو بھلا کر آگے کی طرف سوچ رہے ہیں۔ وہ انتقام کے بجائے تعمیر کا نظریہ اپنا رہے ہیں۔ اس جدید رجحان کو ایک جملہ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے: ماضی کو بھلاؤ، بچوں کو پڑھاؤ۔

۱۹۴۷ کے بعد پیش آنے والے ناخوش گوار واقعات کے نتیجہ میں تمام ہندستانی مسلمان رد عمل کی نفسیات کے شکار ہوگئے تھے۔ راقم الحروف نے پہلی بار مسلمانوں کو یہ بتانا شروع کیا کہ زندگی کا راز مثبت سوچ میں ہے نہ کہ منفی سوچ میں۔ ۱۹۶۵ میں یہ کوشش میں نے لکھنؤ کے ہفت روزہ ندائے ملت کے ذریعہ شروع کی۔ اس کے بعد ۱۹۶۷ سے یہ کام دہلی کے ہفت روزہ الجمعیۃ کے ذریعہ جاری رہا۔ اس کے بعد ۱۹۷۶ میں میں نے دہلی سے ماہنامہ الرسالہ جاری کیا اور زیادہ منظم انداز میں اس کام کو کرنے لگا۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں مسلسل اس کی تائید میں مضامین شائع کیے۔ پورے ملک میں سفر کرکے جلسوں اور اجتماعات کی صورت میں اس مثبت پیغام کو مسلمانان ہند تک پہنچایا۔

یہ نقطۂ نظر مسلمانوں کے لیے اجنبی تھا۔ ایک عربی مثل ہے کہ: الناس اعداء ما جہلوا (لوگ اس چیز کے دشمن بن جاتے ہیں جس سے وہ بے خبر ہیں) چنانچہ ابتدائی طور پر مسلمانوں میں اس کی مخالفت شروع ہوگئی۔وہ صبر اور اعراض کے نظریہ کو دشمن کی چال سمجھنے لگے۔ مگر مسلسل تجربے کے بعد اب ان کی آنکھ کھل گئی ہے۔ اب نہ صرف گجرات بلکہ سارے ملک میں مسلمانوں کا ذہن بدل چکا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ دوسروں کو الزام دینا سراسر بے فائدہ کام ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ساری طاقت خود اپنے تعمیر و استحکام پر لگائی جائے۔

یہ بلاشبہہ ایک صحت مند رجحان ہے۔ سائنسی انقلاب کے بعد دنیا میں مکمل طورپر ایک نیا دور آگیاہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ تلوار میں طاقت ہے (ہر کہ شمشیر زند سکہ بہ نامش خوانند) مگر اب ہر باشعور آدمی جانتا ہے کہ طاقت کا راز علم ہے۔ پہلے اگر دنیا میں صاحب شمشیر لوگوں کا غلبہ ہوتا تھا تو اب دنیا میں غلبہ ان لوگوں کے لیے مقدر ہو چکا ہے جو صاحب علم ہوں۔

یہ دنیا مسابقت کی دنیا ہے۔ یہاں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ دوسروں کی طرف سے آپ کو تلخ تجربات پیش آئیں گے،اپنوں کی طرف سے بھی اور غیروں کی طرف سے بھی۔ وہ شخص نادان ہے جو تلخیوں کی یاد میں جئے۔ دانشمند وہ ہے جو تلخ یادوں کو بھلائے اور صبر و تحمل کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے مستقبل کی تعمیر میں لگا دے۔

تعلیم کا مقصد صرف سروس حاصل کرنا نہیں ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو باشعور بنایا جائے۔ اس دنیا میں سارے مسائل کی جڑ بے شعوری ہے، اور سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ لوگ باشعور ہوں۔ وہ مسائل کی حقیقی نوعیت کو سمجھیں۔ وہ حالات کا بے لاگ تجزیہ کرسکیں۔ وہ اس بات کو جانیں کہ دنیا میں کیا چیز قابلِ حصول ہے، اور وہ کیا چیز ہے جو سرے سے قابلِ حصول ہی نہیں۔

تعلیم آدمی کو بے شعوری سے نکالتی ہے اور اس کے اندر شعور کی صفت پیدا کرتی ہے۔ اس دنیا کی تمام کامیابیاں بلا شبہہ تعلیم یافتہ انسان کے لیے مقدر ہیں۔ تعلیم کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom