ناشکری کا فتنہ

۱۲ جولائی ۲۰۰۴ کی شام کو دہلی کے ای ٹی وی (Eenadu TV) کے اسٹوڈیو میں ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس کا موضوع ’’ہندستانی مسلمان اور ریزرویشن‘‘ تھا۔ اس میں میرے سوا دہلی کے چار معروف مسلم دانشور شریک تھے۔ یہ ڈسکشن ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔

مذکورہ چاروں مسلم دانشوروں کی رائے زیر بحث موضوع پر تقریباً ایک جیسی تھی۔ ہر ایک کا یہ خیال تھا کہ ہندستانی مسلمان ایک پچھڑی ہوئی کمیونٹی (backward community) بن گئے ہیں اور اب مسلمانوں کو ملک کے دوسرے فرقوں کے برابر لانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن دیا جائے۔ ریزرویشن کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔

میں نے کہا کہ میرے نزدیک ہندستانی مسلمانوں کی پسماندگی کی بات محض ایک افسانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد مسلمانوں نے اس ملک میں تقریباً سوگنا زیادہ ترقی کی ہے حتیٰ کہ اقتصادی اعتبار سے آج وہ مغل حکومت کے زمانہ سے بھی زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ آپ کسی بھی شہر یا گاؤں کا سروے کرکے اس حقیقت کو جان سکتے ہیں۔

آپ ایک ملک گیر سروے کریں اور مسلمانوں سے صرف ایک سوال پوچھیں۔ وہ یہ کہ ۱۹۴۷ میں تمہارے خاندان کی جو اقتصادی حالت تھی اس کے مقابلہ میں آج تمہارے خاندان کی حالت کیا ہے۔ تقریباً ہر ایک سے آپ کو یہی جواب ملے گا کہ ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں آج ہم بہت زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ پہلے اگر ہمارے پاس کچا مکان تھا تو اب ہمارے پاس پکا مکان ہے۔ پہلے اگر ہمارے پاس کوئی سواری نہیں تھی تو آج ہمارے پاس جدید سواری موجود ہے۔ پہلے ہمارے پاس بجلی اور ٹیلی فون جیسی چیزیں موجود نہ تھیں مگر آج ہم کو یہ سب چیزیں حاصل ہیں۔ پہلے ہمارے بچے صرف معمولی تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔ آج ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں، وغیرہ۔

میں نے کہا کہ آپ ایک آسان جائزہ لیجئے۔ ملک میں ایسی بہت سی جماعتیں اور ادارے موجود ہیں جو اپنے آپ کو ہندستانی مسلمانوں کا نمائندہ بتاتے ہیں۔ آپ ان نمائندہ جماعتوں اور اداروں کا سروے کیجئے اور دیکھئے کہ آج ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں ان کی حالت کیا ہے۔ مثلاً تبلیغی جماعت، جمعیۃ علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند، دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، دار العلوم، دیوبند، جامعہ دار السلام، عمر آباد، مدرسۃ الاصلاح، اعظم گڈھ، وغیرہ۔ میں ذاتی طورپر جانتا ہوں اور آپ بھی تحقیق کے ذریعہ معلوم کرسکتے ہیں کہ یہ جماعتیں اور ادارے ۱۹۴۷ میں بالکل معمولی حالت میں تھے۔ آج ان کو دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اب وہ کم ازکم سوگنا زیادہ ترقی کرچکے ہیں۔ مالیات، بلڈنگ، کار، ٹیلی فون اور دوسری سہولتیں جو ۱۹۴۷ میں ان میں سے کسی کے پاس موجود نہ تھیں، آج ان میں سے ہر ایک کے پاس اس قسم کی سہولتیں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ ایسی حالت میں پسماندگی کی بات کہنا صرف ناشکری کی زبان بولنا ہے نہ کہ حقیقت واقعہ کا اظہار۔

ہندستان میں روزنامہ دینک جاگرن کے سروے کے مطابق، اس وقت ۲۲ کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان میں سے ہر شخص یکساں درجہ میں خوش حال نہیں۔ ان میں سے کسی کے پاس زیادہ ہے اور کسی کے پاس کم۔مگر اس فرق یا نابرابری کا تعلق کسی ملک یا حکومت سے نہیں۔ یہ فرق تمام تر فطرت کے قانون کی بنا پر ہے۔ وہ خودخالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق ہے۔ اس بنا پر یہ فرق مسلمانوں میں اور دوسری قوموں میں ہمیشہ رہا ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔

اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ و صدقات کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ: تؤخذ من اغنیاء کم و ترد إلی فقرائکم (صدقات تمہارے امیروں سے لیے جاتے ہیں اور وہ تمہارے غریبوں کی طرف لوٹا دیئے جاتے ہیں)۔ اس شرعی حکم کے مطابق، سماج میں ہمیشہ امیر اور غریب دونوں قسم کے لوگ موجود رہتے ہیں۔ فرق کی یہ حالت پیغمبر اسلام کے بنائے ہوئے نظام میں بھی موجود تھی۔ اس کے بعد خلافت راشدہ، اموی سلطنت، عباسی سلطنت، فاطمی سلطنت، ایوبی سلطنت، مغل سلطنت، عثمانی سلطنت اور اسپینی سلطنت،غرض ہر دور میں یہ صورت حال موجود رہی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ علمائے اسلام نے اعلان کیا ہو کہ اب سماج میں فقراء باقی نہیں رہے ہیں اس لیے زکوٰۃ و صدقات کے احکام اب منسوخ قرار پاگئے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چودہ سو برس کے دوران ہر زمانہ میں اور ہر ملک میں مسلم معاشرہ کا اقتصادی اعتبار سے وہی حال رہا ہے جو آج ہندستان میں پایا جاتا ہے۔ مگر اسلامی تاریخ کی طویل مدت میں کبھی علمائے اسلام نے یہ اعلان نہیں کیا کہ مسلمان ایک پس ماندہ ملت بن چکے ہیں۔ یہ بدعت پہلی بار ہندستان کے نام نہاد رہنماؤں نے نکالی ہے اور اس کی حقیقت ایک سطحی سیاست کے سوا اور کچھ نہیں۔

آج کی دنیا میں ۵۷ مسلم ممالک ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں خود مسلمانوں کی اپنی حکومت قائم ہے۔ لیکن ہر جگہ وہی اقتصادی فرق پایا جاتا ہے جو ہندستان میں موجود ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ہر دور میں اور ہر ملک میں یہ فرق موجود رہا۔ اس فرق کو مٹانا سرے سے ممکن نہیں۔

نئی دہلی کے مذکورہ ڈسکشن میں میں نے مزید کہا کہ ’’غریبی‘‘ کوئی برائی نہیں، غریبی ایک چیلنج ہے اور چیلنج ہی واحد چیز ہے جس کے ذریعہ تمام ترقیات ظہور میں آتی ہیں۔ چیلنج نہیں تو ترقی بھی نہیں۔ میں نے کہا کہ بڑی کامیابی حاصل کرنے والے تمام لوگ غریب خاندانوں میں پیدا ہوئے۔ کوئی سپر اچیور(super achiever) کبھی کسی بِل گیٹ(Bill Gate) کے محل میں پیدا نہیں ہوا۔ ہمارے ملک میں جواہر لال نہرو کو چھوڑ کر تمام لیڈر غریب فیملی ہی میں پیدا ہوئے۔ اس کی ایک زندہ مثال صدر جمہوریہ ڈاکٹر عبد الکلام ہیں۔

اوپر میں نے مسلم دانشوروں کے بارے میں جس تجربہ کا ذکر کیا، وہ کوئی ایک تجربہ نہیں۔ ملک کے باہر اور ملک کے اندر ہر جگہ میں نے مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ سے اسی قسم کی بات سنی ہے۔ مسلمانوں کے اخبارات اور میگزین، مسلمانوں کے جلسے، مسلمانوں کی کتابیں، غرض ہر جگہ پسماندگی کی اسی مفروضہ کہانی کو دہرایا جارہا ہے۔ ہر مسلم زبان اور ہر مسلم قلم یکساں طورپر مسلمانوں کی مظلومی اور پسماندگی کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول ہے۔

میں نے اس مسئلہ پر بہت زیادہ غور کیا۔ میں نے جاننا چاہا کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ اس معاملہ کا سب سے زیادہ عجیب پہلو یہ ہے کہ جو مسلم عالم یا دانشور مسلمانوں کی بدحالی پر لکھتے یا بولتے ہیں وہ خود تقریباً بلا استثناء ایک خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ کم ازکم میں نے اپنی لمبی عمر میں جس شخص کو بھی مسلمانوں کے مسائل پر لکھتے یا بولتے ہوئے دیکھا وہ اسی کی مثال تھا۔ یعنی وہ اپنے باپ دادا کے زمانہ کے مقابلہ میں آج بہت زیادہ بہتر زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ مسلمانوں کی مفروضہ حالت پر مرثیہ خوانی کررہا تھا۔

ایک بار میں نے دیکھا کہ ہندستان کے ایک نوجوان عالم ایک عرب ملک میں گئے۔ وہاں انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہندستان کے مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں (مسلموا الہند بین فکی الرحیٰ) یہ مسلمان عالم ماشاء اللہ فربہ جسم کے تھے۔ ان کے لباس اور ان کے چہرہ پر خوش حالی نمایاں تھی۔ ان کے لہجہ میں بھی سکون اور اعتمادجھلک رہا تھا۔ میں نے کہا کہ میرے بھائی، آپ بھی تو ایک ہندستانی شہری ہیں پھر کیسے آپ اس عام تباہی سے بچ گئے اور اگر آپ کے پاس ایسا کوئی نسخہ ہے جس کے ذریعہ آدمی تباہی کی عمومی حالت میں بھی شاندار زندگی حاصل کرسکے تو آپ بربادی کی داستان بتانے کے بجائے مسلمانوں کو یہی ذاتی نسخہ بتائیے۔

غور و فکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان ہر زمانہ میں ایک عمومی فتنہ برپا کرتا ہے۔ کسی انسان کا سب سے بڑا ٹسٹ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس عمومی فتنہ سے اپنے آپ کو بچا سکے۔

میرے نزدیک قدیم زمانہ کا فتنہ شرک تھا۔ اس زمانہ میں شیطان نے فکر و عمل کے تمام نقشوں کو اس طرح شرک کے رنگ میں رنگ دیا تھا کہ ہر عورت اور مرد اس کے اثر میں آگئے۔ ہر ایک نے مشرکانہ کلچر کو اختیار کرلیا۔ یہ صورت حال جاری رہی، یہاں تک کہ رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔

مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ کا فتنہ ناشکری کا فتنہ ہے جو یقینی طورپر شیطان کا پیداکردہ ہے۔ شیطان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حالات کا غلط مطالعہ کراتا ہے اور اس طرح لوگوں کو بے بنیاد طورپر غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسے واقعہ کو سمجھنے سے بھی قاصر رہتے ہیں جو ان کے قدموں کے نیچے موجود ہو۔

مثال کے طورپر دہلی میں ایک بار میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے ہوئی۔ وہ ایک غریب خاندان میں پیداہوئے مگر آج وہ دہلی میں ایک شاندار مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس موٹر کار اور دوسری جدید سہولیات موجود ہیں۔اُ ن کے بچے مہنگی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ مگر وہ بے تکان اس رواجی قول کو دہرارہے تھے کہ ہندستان کے مسلمان اقتصادی اعتبار سے بدحالی کا شکار ہور ہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ بھی تو ایک ہندستانی مسلمان ہیں۔ مگر آپ راجدھانی میں ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر آپ اپنے ذاتی تجربہ سے سبق کیوں نہیں لیتے۔

پھر میں نے کہا کہ دہلی کا ہمدرد دواخانہ ۱۹۴۷ میں کرایہ کے ایک معمولی مکان میں تھا۔ مگر آج ہمدرد دواخانہ ایک ایمپائر بن چکا ہے۔ انہوں نے فوراً کہا کہ آپ ہمدرد دواخانہ کا تقابل ڈابر کمپنی سے کیوں نہیں کرتے جو ہمدرد دواخانہ کے مقابلہ میں بہت زیادہ ترقی کرچکا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ ایک غیر منطقی بات کررہے ہیں۔ کیوں کہ آپ حضرات کا یہ کہنا ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد انڈیا کی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا اس لیے وہ بدحالی کے شکار ہوگئے۔ اس لیے اصل سوال کی نسبت سے ہم کو مسلمانوں کی ۱۹۴۷ کی اپنی حالت کا مقابلہ آج کے مسلمانوں کی اپنی حالت سے کرنا ہوگا اس پر وہ خاموش ہوگئے۔

اصل یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ کسی دوسرے کے ظلم کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے اپنے غلط مزاج کا ہے اور وہ مزاج ناشکری کا مزاج ہے۔ اسی مزاج کی بنا پر آج یہ حالت ہے کہ ہر مسلمان ناشکری کی زبان بول رہا ہے، خواہ وہ ایسی شاندار زندگی گزار رہا ہو جس کا اس کے باپ دادا نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

مثال کے طورپر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتیں اور ادارے قائم ہوئے ہیں۔ مگر کسی بھی جماعت یا ادارہ میں شکر خداوندی کا چرچا نہیں۔ مثال کے طورپر تبلیغی جماعت میں تعلیم کے لیے ایک ضخیم کتاب تبلیغی نصاب یا فضائل اعمال کوعام طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں کئی چیزوں کے فضائل پر ابواب موجود ہیں مگر اس میں فضائل شکر کا کوئی با ب نہیں۔ جماعت اسلامی میں (اسلام کے مکمل نظام) پر بہت سی کتابیں چھاپی گئی ہیں۔ مگر شکر خداوندی پر ان کے یہاں کوئی کتاب موجود نہیں۔ یہی حال دوسرے تمام اداروں کا ہے۔ مسلمانوں کے جلسوں میں دوسرے موضوعات پرجوشیلی تقریریں ہوتی ہیں۔ مگر میرے علم کے مطابق، شکر خداوندی کے موضوع پر کوئی تقریر نہیں ہوتی۔

میں اپنے تجربہ کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں سے سب سے بڑی چیز جو اٹھ گئی ہے وہ شکر خداوندی کی اسپرٹ ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی محرومی یہی ہے۔ اسی محرومی کا یہ نتیجہ ہے کہ اب ان کی زبان سے شکر کے کلمات نہیں نکلتے، ہر ایک بس ناشکری کے الفاظ بول رہا ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک بے حد خطرناک علامت ہے۔ ہماری اصلاحی کوششوں کا نشانہ یہی داخلی کمزوری ہونا چاہیے نہ کہ کوئی بیرونی خطرہ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom