رزق خدا کے ہاتھ میں
دہلی کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ انہوں نے ایم بی اے کاکورس کیا ہے۔ وہ ایک غیر ملکی کمپنی میں سروس کرتے ہیں۔ عام غیرملکی کمپنیوں کی طرح اس کمپنی کا اُصول یہ ہے کہ ملازمت دو اور برخاست کردو(hire and fire) اُنہوں نے مجھ سے ملاقات کی اور کہا کہ بظاہر میں ایک اچھی ملازمت میں ہوں۔ مگر مجھے ہر وقت ٹنشن رہتا ہے۔ ہر وقت مجھے سروس کھونے کا اندیشہ (fear of losing job) پریشانی میں مبتلا کیے رہتا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کی پریشانی ایک نفسیاتی پریشانی ہے، نہ کہ کوئی حقیقی پریشانی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ رزق کی تقسیم خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ خدا جس کو چاہے دے اور خدا جس کو چاہے محروم کردے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو ایک سادہ فارمولا دیتا ہوں۔ اس کو آپ اپنے ذہن میں بٹھا لیجیے اور پھر آپ کو کوئی پریشانی نہ ہوگی۔ وہ فارمولا یہ ہے—ایک شخص آپ کی سروس کو چھین سکتا ہے مگر کوئی شخص اتنا طاقتور نہیں کہ وہ آپ سے آپ کی قسمت کو چھین لے:
One can take away your job, but no one has the power to take away your destiny.
کہیں میری سروس نہ چلی جائے— اس خیال میں فکر مند ہونے کے بجائے آدمی کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اتنا زیادہ لائق بنائے کہ کوئی شخص اُس کی سروس ختم کرنے کی ہمت ہی نہ کرسکے۔ اس مسئلہ کا حل اندیشہ میں مبتلا ہونا نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو زیادہ کار آمد بنانا ہے، اپنے آپ کو دوسروں کے لیے مفید تر بنانا ہے۔ کوئی بھی شخص ایک کار آمد انسان کو کھونے کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہ صرف ناکارہ لوگ ہیں جو محروم کیے جاتے ہیں، اور پھر اپنی محرومی پر شکایت کا دفتر کھول دیتے ہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی فطری صلاحیت پر بھروسہ کرے نہ کہ دوسروں کے رویہ پر۔ ہر آدمی کی قسمت اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ مگر غلطی سے وہ اس کو دوسرے کے ہاتھ میں سمجھ لیتا ہے۔