ایک کے بدلہ میں دَس
مارک ٹوین (Mark Twain) امریکا کا مشہور ناول نگار ہے۔ وہ ۱۸۳۵ میں پیدا ہوا اور ۱۹۱۰ میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کا ایک قول یہ ہے—دینے اور لینے کا اصول در اصل ایک تدبیر کار ہے۔ یعنی ایک دو اور دس پاؤ:
The principle of give and take is the principle of diplomacy— give one and take ten.
دینے والا جب کسی معاملہ کو دے کر ختم کرتا ہے تو بظاہر وہ سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ کھو دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ شرافت کا ایک معاملہ ہوتاہے۔ نتیجہ کے اعتبار سے اس دنیا میں اُسی کو کامیابی ملتی ہے جو شریفانہ اخلاق کا مظاہرہ کرے۔ وہ جتنا دیتا ہے اُس سے بہت زیادہ وہ آخر کار پالیتا ہے۔ وہ اگر ایک کے بقدر دیتا ہے تو واپس ہو کر وہ اُس کو دس کے بَقدر ملتا ہے۔
ایک دینا وہ ہے جو تجارتی لین دین کے تحت ہو۔ اس لین دین میں دونوں طرف انٹرسٹ ہوتا ہے۔ جو دیتا ہے وہ بھی انٹرسٹ کے لیے دیتا ہے اور جو لیتا ہے وہ بھی انٹرسٹ کے لیے لیتا ہے۔ اس طرح کے لین دین میں برابر کا اُصول ہے۔ یعنی جتنا دینا اُتنا پانا۔ دوسرا لین دین وہ ہے جو انسانی ہمدردی کے تحت کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک شخص کسی ذاتی غرض کے بغیر دوسرے کی خدمت کرے، وہ دوسرے کو یک طرفہ طور پر کوئی عطیہ دے۔
جب کوئی شخص بے غرضانہ طورپر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے یا کسی ذاتی مفاد کے بغیر کوئی چیز اس کو دیتا ہے تو ایسا آدمی اپنے عطیہ کے ساتھ ایک اور انتہائی قیمتی چیز شامل کرتا ہے، اور وہ سچی ہمدردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دوسرے کی طرف سے اُس کو جوابی صلہ دیا جاتا ہے تو دینے والا اس کو دس گنا بڑھا کر دیتا ہے، بلکہ کبھی اس سے بھی زیادہ۔خود غرضانہ لین دین میں یہ اُصول ہے کہ جتنا دو اُتناپاؤ۔ لیکن بے غرضانہ لین دین کا اصول اس کے مقابلہ میں یہ ہے کہ— جتنا دو اُس سے بہت زیادہ پاؤ۔