خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۶۹
۱۔ کیرالا کے شانتی گری آشرم کی طرف سے کوٹایم (Kottayam) میں ایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع امن اور روحانیت تھا۔ اس میں سابق صدر مسٹر کے آر نارائنن بھی شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور وہاں کے اجلاس میں حصہ لیا۔ یہ سیمینار ۳۔۵ جنوری ۲۰۰۵ کو منعقد کیا گیا۔ اس سفر کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۲۔ انڈین ایکسپریس نئی دہلی کے نمائندہ اروناوا داس گپتا (Arunava Dasgupta)نے ۷ جنوری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر حج کے مقصد کے بارہ میں تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ حج کا مقصد انسانی اور روحانی بنیاد پر لوگوں کا اتحاد ہے۔
۳۔ سب ٹی وی(نئی دہلی) کے تحت ۱۰ جنوری ۲۰۰۵ کو ان کے اسٹوڈیو میں جَن سنسد کا پروگرام ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اس کا موضوع یہ تھا: فیملی پلاننگ اور اسلام۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام میں زندگی کو ختم کرنا حرام ہے خواہ وہ بعد از وضع حمل ہو یا قبل از وضع حمل۔ مگر جہاں تک منع حمل کی تدابیر کا تعلق ہے، وہ اسلام میں جائز ہے۔
۴۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) نے ۱۲ جنوری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر موہن مشرا تھے۔ سوالات کا تعلق عورتوں کے مسجد میں نماز پڑھنے سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ مردوں کے لیے مسجد میں جاکر نماز پڑھنا ضروری ہے۔ مگر عورتوں کے لیے مسجد میں نماز پڑھنا اختیاری ہے۔ اس معاملہ میں عورتوں پر کوئی پابندی نہیں۔ مزید بتایا گیا کہ مکہ اور مدینہ کی مسجدیں جو نمائندہ مساجد کی حیثیت رکھتی ہیں وہاں روزانہ پانچ وقت مسلم خواتین آکرجماعت کے ساتھ نماز پڑھتی ہیں۔
۵۔ ٹیڈ سیونسن(Ted Sevensson) سویڈن کے رہنے والے ہیں۔ وہ لندیونیورسٹی (Lund University) میں ایک ریسرچ اسکالر ہیں۔ اُن کی ریسرچ کا موضوع یہ ہے:
Muslim Identity in India
۱۳ جنوری ۲۰۰۵ کو انہوں نے اس سلسلہ میں صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی اور اپنے موضوع پر ان کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کے دوران بتایا گیا کہ انڈیا میں مسلمانوں کا مستقبل نہ صرف محفوظ ہے بلکہ یہاں وہ ترقی کررہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ انڈیا کے مسلمانوں پر برطانی مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی کا نظریہ منطبق ہوتا ہے۔ غیر مسلم اکثریت ان کے لیے ایک نعمت ہے۔ کیوں کہ اس بنا پر وہ چیلنج کی حالت میں ہیں اور اس چیلنج کی بنا پر وہ دن بدن تخلیقی اقلیت(creative minority) بن رہے ہیں۔ آخر میں ان کو مندرجہ ذیل کتاب دی گئی:
Indian Muslims: A Positive Outlook
۶۔ سائی بابا انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ۱۸ جنوری ۲۰۰۵ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس کے تحت نوودے ودیالیہ اسکولوں کے پرنسپل اکھٹاہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے وہاں خطاب کیا۔ ان کے خطاب کا عنوان یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
انہوں نے اس موقع پرآدھ گھنٹہ تقریر کی اور اس کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا گیا کہ اسلام میں بنیادی انسانی اقدار کی تعلیمات کیا ہیں۔ شرکاء کے درمیان اسلامی مرکز کی دعوۃبک لٹ تقسیم کی گئیں۔
۷۔ مسٹر عبد اللہ نعیم ابراہیم مالدیپ کے رہنے والے ہیں۔ وہ آفاتھس (Aafathis)ڈیلی نیوز کے مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے ۱۸ جنوری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ اسلامی مرکز کے لٹریچر کو کس طرح مالدیپ کی زبان میں منتقل کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ عرصہ سے وہ الرسالہ اور الرسالہ مطبوعات کے مضامین مالدیپی زبان میں شائع کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب وہ اسلامی مرکز کی کچھ کتابوں کا مالدیپی زبان میں ترجمہ چھپوانے کا انتظام کررہے ہیں۔
۸۔ فرنچ نیوز ایجنسی (AFP) نئی دہلی، کی نمائندہ پینی میکرا (Peni Macrae) نے ۱۸ جنوری ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو گودھرا کے حادثہ کے بارے میں تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ بنرجی کمیشن کی رپورٹ سے گودھرا حادثہ کے بارے میں جو لوگ ماخوذ ہیں کیا ان کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ اس کے جواب میں کہا گیا کہ انڈیا میں عدالتی فیصلے زیادہ ترٹیکنیکل گراؤنڈ پر ہوتے ہیں اور ٹیکنیکل گراؤنڈ میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ خلاف توقع نہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کمیشن کی رپورٹ کا کتنا اثر عدالتی فیصلہ پر پڑے گا۔
۹۔ سمیاودیا وہار (Somaiya Vidyavihar) کی طرف سے بمبئی میں ۲۰، ۲۱، ۲۲ جنوری ۲۰۰۵ کو ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس کا موضوع یہ تھا:
Religions as Instruments of Social Transformation
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی اور اسلام کی روشنی میں موضوع پر اظہار خیال کیا۔ اس سفر کے موقع پر بہت سے ہندوؤں اور مسلمانوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور ملک و ملت کے مسائل پر ان سے تبادلۂ خیال کیا گیا۔
۱۰۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور ٹمپل آف انڈر اسٹینڈنگ کے تعاون سے نہرو یونیورسٹی میں ۲۴ جنوری ۲۰۰۵ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس کا عنوان تھا:
Interfaith Harmony and Social Cohesion
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ سماجی اتحاد کا فارمولا یہ نہیں ہے کہ مذہبی اختلاف کو مٹایا جائے بلکہ اس کا قابل عمل فارمولا صرف یہ ہے کہ لوگوں کے اندر باہمی احترام کا مزاج پیدا کیاجائے، یعنی:
Follow one and respect all
۱۱۔ زی ٹی وی (نئی دہلی) اور اسٹار ٹی وی نے ۴ فروری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ دونوں کا موضوع ایک تھا۔ پٹنہ ہائی کورٹ نے ہائی کورٹ کی بلڈنگ سے قریب کی ایک مسجد کے بارے میں حکم جاری کیا تھا کہ ظہر اور عصر کی نماز کے لیے وہاں لاؤڈاسپیکر پر اذان نہ دی جائے کیوں کہ اس کی آواز سے ہائی کورٹ کے کام میں خلل پڑتا ہے۔ اس پر پٹنہ کے مسلمانوں نے مظاہرے کیے۔ اس مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ انڈیا ایک سیکولر کنٹری ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کو یہاں کے قانون کی اسی طرح پابندی کرنا چاہیے جس طرح وہ دنیا کے دوسرے سیکولر ملکوں میں قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ اولاً تو اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور اگر بالفرض وہ ضروری ہو تو اس کا نفاذ مسلم ملکوں میں کیا جانا چاہیے نہ کہ سیکولر ملکوں میں۔
۱۲۔ جے پور میں ۱۲۔ ۱۳ فروری ۲۰۰۵ کو ایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس کا انعقاد مائی ہندستان اے پیس موومنٹ(My Hindustan A Peace Movement) کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس سیمینار کا موضوع امن اور فرقہ وارانہ اتحاد اور حب الوطنی کو فروغ دینا تھا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں خصوصی مقرر کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ مگر بعض اسباب سے وہ اس میں شریک نہ ہوسکے۔ البتہ اُنہوں نے ایک پیغام بھیج دیاجو سیمینار میں پڑھ کر سُنایا گیا۔ وہ پیغام یہ تھا:
میرے نزدیک بھارت کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ Separatist Tendency ہے۔یہ tendency ٹو نیشن ـتھیوری کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ مہاتما گاندھی نے اس با ت کو بھر پور طورپر محسوس کیا تھا۔ چنانچہ آزادی کے وقت انہوں نے کہا تھا:
Hindus and Musalmans should learn to live together in peace and harmony. Otherwise I should die in the attempt
میں نے اپنی زندگی کو اسی مشن کے لیے وقف کررکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کی ہر سنستھا کو چاہیے کہ وہ اس کو پوری اہمیت کے ساتھ لے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں میل ملاپ سارے معاملہ کی جڑ ہے۔ میں مسلمانوں کو یہ پیغام دیتا رہا ہوں کہ وہ negative thinking کو مکمل طورپر ختم کردیں اور صد فی صد positive thinking کو اپنائیں۔ یہی مسلمانوں کے لیے اچھا ہے۔ یہی تمام فرقوں کے لیے اچھا ہے اور یہی ملک کے لیے اچھا ہے۔ ہمارا مستقبل سب سے زیادہ جس چیز سے جڑا ہوا ہے وہ یہی ہے۔ اسی سوچ سے سچی حب الوطنی پیدا ہوگی۔اسی سوچ سے سارے معاملات درست ہوں گے۔ (۱۱ فروری ۲۰۰۵)
۱۳۔ جاپان فاؤنڈیشن کے تحت ۱۷۔۲۰ فروری ۲۰۰۵ کو بنارس میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس میں انڈیا او رجاپان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر ڈسکشن کا موضوع یہ تھا:
Changing Dynamics of Hinduism and Islam
صدر اسلامی مرکز کو اس سیمینار میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی مگر وہ بعض وجوہ سے اس میں شریک نہ ہوسکے۔ البتہ موضوع پر دو صفحہ کی ایک تحریر انہیں بھیج دی گئی جس کو سیمینار میں پڑھ کر سنایا گیا۔
۱۴۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۰ فروری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کاانٹرویو لیا۔ ۱۰ محرم کو لکھنؤ میں تعزیہ کے جلوس کے سلسلہ میں شیعہ۔ سنّی جھگڑا ہوگیا۔ اس میں کچھ افراد مارے گئے۔ یہ انٹرویو اسی کے بارے میں تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ تعزیہ کے جلوس کے سوال پر اکثر فساد ہوتا ہے۔ یہ سراسر غیر اسلامی ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ جلوس کو بند کرنے یا اس کی روٹ بدلنے کا مطالبہ کیا جائے۔ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہیں وہ اس پر صبر وتحمل کا طریقہ اختیا رکریں۔
۱۵۔ ہندی روزنامہ نو بھارت ٹائمس (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر رندھیر کمار نے ۲۲ فروری ۲۰۰۵کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوال و جواب کا تعلق زیادہ تر صوفی ازم سے تھا۔ بتایا گیا کہ ہندستان میں ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان میل ملاپ بڑھانے کی تدبیر یہ ہے کہ یہاں صوفی کلچر کو زندہ کیا جائے۔ صوفی کلچر صلح کُل پر مبنی ہے۔ صوفی تعلیمات یہ ہیں کہ ہر ایک کے ساتھ محبت اور رواداری کا معاملہ کیا جائے۔ صوفی کلچر کا ایک چھوٹا سا نمونہ اب بھی صوفیوں کے مزار پر دیکھا جاسکتا ہے۔یہاں آج بھی ہندو اور مسلمان دونوں کے درمیان میل ملاپ کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ اسی میل ملاپ کو پورے ملک میں عام کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ کشمیر کے مسئلہ کا حل وہی ہے جو پنجاب میں خالصہ تحریک کے مقابلہ میں اختیار کیا گیا۔ یعنی لوگوں کی سوچ کو بدل کر ان کے اندر سے علیٰحدگی کا رجحان ختم کرنا۔
۱۶۔ صدر اسلامی مرکز کی تقریروں کے کچھ ویڈیو کیسیٹ تیار کیے جارہے ہیں۔ فی الحال دو ویڈیو کیسیٹ تیار ہوا ہے۔ ایک کا عنوان ہے، حج کی حقیقت اور دوسرے کا عنوان ہے، نماز کی حقیقت۔ اسی طرح دوسرے اسلامی موضوعات پر بھی ویڈیو کیسٹ انشاء اللہ تیار کیے جائیں گے۔ اس سلسلہ میں مزید تفصیل دفتر سے معلوم کی جاسکتی ہے۔
۱۷۔ چند نئی کتابیں تیار ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک نشانِ منزل ہے۔ دو سو آٹھ صفحہ کی یہ کتاب زیر طبع ہے۔ یہ کتاب راز حیات اور کتابِ زندگی کے انداز پر لکھی گئی ہے۔