یہ بدعت ہے

۱۰ اگست ۲۰۰۴ کو ایک مسلم نوجوان مجھ سے ملے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پچھلے روز دہلی کے ایک آڈیٹوریم میں مسلمانوں کا ایک جلسہ ہوا۔ اس میں ایک مسلم رہنما کی تقریر ہوئی۔ وہ مسلمانوں میں کامیاب مقرر سمجھے جاتے ہیں۔ مسلم نوجوان نے بتایا کہ پورا آڈیٹوریم مسلمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ شاندارتقریر کے دوران مسلسل تالیاں بجتی رہیں۔ تالیوں کی کثرت سے ہال گونج اُٹھا۔

میں نے مذکورہ مسلم نوجوان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں مسلمانوں کو خطاب فرماتے تھے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کے درمیان خطاب فرمایا۔ کیا ان مواقع پر سامعین تالیاں بجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ خلفائے راشدین بار بار مسلم اجتماعات میں خطاب کرتے تھے۔ کیا ان مواقع پر یہ مسلمان تالیاں بجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ صحابہ اور تابعین بار بار مسلمانوں کے اجتماعات میں تقریر کرتے تھے۔ کیا وہ لوگ تقریر کو سُن کر تالیاں بجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ نہیں۔

پھر میں نے کہا کہ حدیث کے مطابق، ابتدائی زمانہ کے تین دوروں کو قرون مشہود لہا بالخیر کہا گیا ہے۔ یہ تین دور ہیں۔ رسو ل اللہ کا دور، صحابہ کا دور اور تابعین کا دور۔ ان تینوں دوروں کے بارہ میں ثابت ہے کہ اُ س زمانہ میں مسلم ذمہ دار مسلم اجتماعات میں تقریریں کرتے تھے۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ مسلم سامعین تقریر سُن کر تالیاں بجائیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جلسہ یا اجتماع میں تقریر کو سُن کر تالیاں بجانا ایک بدعت ہے۔

بدعت کے بارہ میں حدیث کی کتابوں میں نہایت سخت وعید یں آئی ہیں۔مثلاً ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من احدث فی امرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد (الصحیح للبخاری، کتاب الصلح، صحیح مسلم، کتاب الأقضیۃ، ابن ماجہ، مقدمہ، مسند احمد) یعنی جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات نکالے جو کہ اُس میں نہ ہو تو وہ رد ہے۔

اس طرح کی اور بھی کئی روایتیں کتابوں میں آئی ہیں۔ مثلاً ایک طویل روایت میں یہ الفاظ ہیں: وایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ و ان کل بدعۃ ضلالۃ (صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ، سنن ابی داؤد، کتاب السنّۃ، سنن النسائی، کتاب العیدین، سنن ابن ماجہ، مقدمہ، سنن الدارمی، مقدمہ، مسند احمد) یعنی تم دین میں نئی چیز نکالنے سے بچو، کیوں کہ ہر نئی چیز گمراہی ہے۔

موجودہ زمانہ میں یہ عام رواج ہے کہ مقررین پرجوش تقریریں کرتے ہیں اور سامعین پُر جوش تالیاں بجاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی بلا شبہہ بدعت کی تعریف میں آتا ہے۔ یہ بھی اُنہی نئی مہلک چیزوں میں سے ہے جس کو حدیث میں بدعت کہاگیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ اضافہ بدعت حسنہ نہیں ہے بلکہ یہ بدعتِ سیئہ ہے۔ یہ سطحیت اور بے حسی کا مظاہرہ ہے جو خدا کے دین میں محمود نہیں۔

اکثر لوگوں کا احساس یہ ہوتا ہے کہ یہ تو چھوٹی چیزیں ہیں اور اس قسم کی چھوٹی چیزوں میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔ مگر یہ طرزِ فکر خود دینی اعتبار سے ایک ہلاکت خیز طرزِ فکر ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچو ایاکم ومحقرات الذنوب۔ ایک روایت کے مطابق، ایک صحابی نے بعد کے زمانہ کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: انکم لتعملون عملًا ہی ادق فی اعینکم من الشعر، ان کنا لنعدہا علی عہدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم من الموبقات (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، سنن الدارمی، کتاب الرقاق، مسند احمد) یعنی تم ایک ایسا عمل کرتے ہو جو عمل تمہاری نگاہوں میں بال سے بھی زیادہ ہلکا ہوتا ہے۔ مگر ہم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسی چیزوں کو تباہ کن عمل سمجھتے تھے۔

اصل یہ ہے کہ کسی عمل کے بُرا یا بھلا ہونے کا تعلق صرف اس کے ظاہر سے نہیں ہے بلکہ اس سے ہے کہ وہ کس جذبہ کے تحت کیا گیا۔ ایک بظاہر چھوٹا عمل اگر بے حسی اور آخرت فراموشی کے جذبہ سے کیا جائے تو وہ ایک بُرا عمل قرار پائے گا۔

مثلاً اسلام کے نام پر ایک اجتماع ہوتا ہے۔ اُس میں ایک مقرر شاندار تقریر کرتاہے۔ پھر اُس کو سُن کر سامعین تالیاں بجاتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک سادہ واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ا پنی حقیقت کے اعتبار سے وہ کوئی سادہ واقعہ نہیں۔ جو مقرر شاندار تقریرکررہا ہے وہ اپنی اس تقریر کے ذریعہ بتارہا ہے کہ وہ احتساب خویش کی نفسیات سے خالی ہے۔ اس کو اس حقیقت کا شعور نہیں جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ما یلفظ من قولٍ إلا لدیہ رقیب عتید۔ اُس کو یہ احساس نہیں کہ وہ اسٹیج پر کھڑا ہو کر جو الفاظ بول رہا ہے وہ انسانوں تک پہنچنے سے پہلے خدا وندِ عالم تک پہنچ رہے ہیں۔

جو آدمی اس قسم کی نفسیات میں جی رہا ہو اس کی تقریر کا انداز بالکل بدل جائے گا۔ اُس کی زبان سے وہ الفاظ ہی نہیں نکلیں گے جس کو سُن کر لوگ جوش میں آئیں اور تالیاں بجائیں۔ اس کی تقریر احساس ذمہ داری کو بڑھانے والی ہوگی، نہ کہ احساسِ فخر کو بڑھانے والی۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانہ میں تقریر پر تالیاں نہیں بجائی جاتی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی بات ہی نہیں کرتے تھے جس کو سُن کر لوگ جذبات میں آجائیں اور تالیاں بجائیں۔

یہی معاملہ سامعین کا ہے۔ سامعین کا تقریر کو سن کر تالیاں بجانا در اصل اس بات کا مظاہرہ ہے کہ اُن کا سینہ احساسِ ذمہ داری سے خالی ہے۔ اگر سامعین کا یہ حال ہو کہ وہ آخرت کی جواب دہی کے احساس میں جیتے ہو ں تو مقرر کی ہر بات اُنہیں خدا اور رسول کی یاد دلائے گی۔ وہ ان کے اندر جنت اور جہنم کے بارہ میں دینی احساس کو بیدار کرے گی۔ مقرر کی بات ان کے ربانی احساسات کو جگائے گی۔ جو لوگ اس قسم کی نفسیات میں جیتے ہوں اُن کا ہاتھ کبھی تالیاں بجانے کے لیے نہیں اُٹھے گا۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے حضور میں محسوس کرنے لگیں گے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ کبھی تالیاں نہیں بجاسکتے۔ مقرر کی تقریر اُن کو مجبور کرے گی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سوچیں، وہ اپنی کوتاہیوں کو سوچ کر آنسو بہائیں۔ ایسے لوگ کبھی اس قسم کا سطحی فعل نہیں کرسکتے جس کو تالیاں بجانا کہا جاتا ہے۔

سچی تقریر وہ ہے جو احتسابِ خویش (introspection) کا جذبہ اُبھارے، جو آدمی کو خود اپنی اصلاح کے لیے فکر مند بنادے۔ جو آدمی کے اندر ذمہ داری کا احساس جگائے۔ اس کے برعکس وہ تقریر جھوٹی تقریر ہے جو آدمی کے اندر فخر یا احتجاج کا جذبہ اُبھارے۔ ایسے مقررین کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ چپ رہیں، نہ کہ بے فائدہ طورپر اسٹیج سے اپنے لفظی کرتب کا مظاہرہ کریں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom