ٹیلی فون سے خطاب

۲۷؍ جون ۲۰۰۴ کو امریکا میں مقیم کچھ مسلمانوں نے میرے ایک ٹیلی فونی خطاب کا انتظام کیا۔ میں نے دہلی میں اپنے آفس کے ٹیلی فون پر ایک تقریر کی اور اسی وقت اس کو امریکا کے شہر فلاڈلفیا کے اجتماع میں سنا گیا۔ یہ تقریباً ایک گھنٹہ کا پروگرام تھا۔ پہلے میں نے ۱۵ منٹ تقریر کی۔ اس کے بعد سننے والے ٹیلی فون پر سوال کرتے رہے اور میں ٹیلی فون پر اس کا جواب دیتا رہا۔ خطاب کے آغاز میں میں نے کہا کہ میں اپنی بات شکر خدا وندی کے جذبہ سے شروع کرتا ہوں۔ یہ جدید کمیونیکیشن بلا شبہہ ایک عظیم نعمت ہے جس نے اس بات کو ممکن بنایا کہ ایک شخص دہلی میں بولے اور عین اسی وقت امریکا میں اس کو سنا جارہا ہو۔

موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن کی طاقت کو زیادہ تر غیر مسلم قومیں استعمال کررہی ہیں، اس لیے اکثر مسلمان یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جدید کمیونیکیشن در اصل گلوبلائزیشن (globalization) کا ایک ہتھیار ہے جس کے ذریعہ مسلم دشمن قومیں مسلمانوں کو اپنی غلامی میں جکڑ لینا چاہتی ہیں۔ یہ ایک بے شعوری کی بات ہے۔ جدید کمیونیکیشن کی حیثیت ایک طاقت کی ہے، جو بھی چاہے اس کو اپنے حق میں استعمال کرسکتا ہے۔

پھر میں نے کہا کہ اس وقت میں جہاد کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ جہاد آج کل بہت زیادہ نیوز میں ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جہاد کے معنٰی جنگ کے ہیں، مگر یہ درست نہیں۔ جنگ کے لیے قرآن میں قتال کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جہاد کے لفظی معنٰی کوشش یا جدوجہد کے ہیں۔ جہاد دراصل اس پر امن جدوجہد کا نام ہے جو کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے کیا جائے۔ جہاد عبادت کی طرح ایک مسلسل عمل ہے۔ جب کہ قتال صرف ایک وقتی کارروائی ہے جو خارجی حملہ کی صورت میں دفاع کے لیے کیا جائے۔

حدیث میں آیا ہے کہ جہاد اسلام میں چوٹی کا عمل ہے (وذروۃ سنامہ الجہاد) اس حدیث کی روشنی میں غور کیجئے تو جہاد کبھی متشددانہ عمل کا عنوان نہیں ہوسکتا۔ جہاد کی عظمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ ایک مثبت عمل ہے نہ کہ منفی عمل۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل عام ہی یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ جہاد کی متشددانہ تعبیر درست نہیں:

Common sense is enough to understand that militant interpretation of Jihad is incorrect.

قرآن کے مطالعہ سے جہاد کے دو مثبت پہلو معلوم ہوتے ہیں۔ ایک کو قرآن میں جہاد فی اللہ (Jihad in God) کہا گیا ہے اور دوسرے کو جہاد فی سبیل اللہ (Jihad for the sake of God) بتایا گیا ہے۔ یہ دونوں مثبت عمل ہیں، اور اصلاً انہیں کا نام جہاد ہے۔

جہاد فی اللہ (اللہ میں جہاد) کیا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں دوسری جگہ اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگنا بتایاگیا ہے: صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ- یعنی اپنی زندگی کو خدا کی پسند میں ڈھالنا۔ اپنی سوچ کو خدا رخی سوچ (God-oriented thinking) بنانا۔ اللہ کو معرفت کے درجہ میں حاصل کرنے کے لیے فکری عمل کرنا۔ اپنے جذبات اور احساسات کوخدا کے تابع بنانے کے لیے محنت کرنا۔ اپنے اوپر تزکیہ کا عمل جاری کرنا۔ خدا کے ساتھ خوف شدید اور حب شدید کا تعلق قائم کرنا۔ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کرنا۔ اپنے اندر اس شخصیت کی تعمیر کرنا جس کو قرآن میں نفس مذکی یا نفس مطمئن کہا گیا ہے۔ دنیا کی مشغولیتوں میں رہتے ہوئے خدا اور جنت کا طالب بن جانا۔

یہ جہاد بلا شبہہ ایک مشکل ترین عمل ہے۔ یہ اپنی نئی تخلیق کے ہم معنٰی ہے۔ اسی لیے اس کو بڑا جہاد بتایا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام نے ایک بار اپنے دشمنوں کے خلاف اقدام کیا۔ آپ اس سے واپس ہو کر مدینہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: رجعنا من الجہاد الأصغر إلی الجہاد الأکبر۔ یعنی ہم چھوٹی جدوجہد سے واپس ہو کر بڑی جدوجہد کی طرف آئے ہیں۔

اس حدیث کے مطابق، بڑا جہاد اس عمل کا نام ہے جواس وقت مدینہ میں انجام دیا جاتا تھا۔ یہ عمل کیا تھا۔ وہ تھا پیغمبر اسلام سے نصیحت لینا، قرآن کا مطالعہ کرنا، ذکر و عبادت میں مشغول رہنا، اجتماعی زندگی کی غلطیوں کو یک طرفہ برداشت کرنا۔

جہاد فی سبیل اللہ (اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا) کیا ہے۔ یہ قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ ارشاد ہوا ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیراً۔ یعنی ان کے اوپر قرآن کے ذریعہ بڑا جہاد کرو۔ یعنی قرآن کو لوگوں تک پہنچانے میں ان کی مدد کرو۔ ظاہر ہے کہ قرآن کوئی ہتھیار نہیں، وہ عقیدہ اور نظریہ کی ایک کتاب ہے۔ ایسی حالت میں قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی فکر کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ چنانچہ پیغمبر اسلام کی دعوتی سرگرمی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ آپ لوگوں کے پاس جاتے اور ان کو قرآن پڑھ کر سناتے (فأعرض علیہم الاسلام و تلا علیہم القرآن) یہ دونوں قسم کے جہاد سخت محنت کے طالب ہیں۔ مثلاً اگر آپ نفس مطمئن بننے کا فیصلہ کریں تو آپ کو زبردست جدوجہد کے مرحلہ سے گزرنا ہوگا،کیوں کہ زندگی میں ہر لمحہ لوگوں کی طرف سے تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں ضروری ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو منفی نفسیات سے بچائے اور ہر حال میں اپنے آپ کو مثبت نفسیات پر قائم رکھے۔ ایسا زبردست جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

دعوتی جہاد بھی بلاشبہہ ایک بے حد مشکل عمل ہے۔ دعوتی عمل ان لوگوں پر انجام دینا پڑتا ہے جو اکثر اہل اسلام کو اپنے دشمن کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ ایسی حالت میں دعوت کاعمل دشمن کے ساتھ یک طرفہ محبت و شفقت کے سلوک کے ہم معنٰی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو عظیم جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

جہاں تک قتال (جنگ) کا تعلق ہے، وہ صرف ایک مقصد کے لیے پیش آتا ہے، اور وہ ہے، جارحانہ حملہ کے وقت دفاعی مقابلہ کرنا۔ اسلام میں قتال کی بہت سی شرطیں ہیں۔ ان شرطوں کے بغیر جو قتال کیا جائے وہ اسلام کا جائزکردہ قتال نہیں۔ اس کی لازمی شرط یہ ہے کہ صرف باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت ہی جنگ کا اعلان کرسکتی ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کو ہر گز جنگ کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر کسی شخص یا جماعت کو یہ احساس ہو کہ جنگ کرنا ضروری ہوگیا ہے تو وہ صرف یہ کرسکتا ہے کہ حکومت وقت سے جنگی اقدام کے لیے کہے اور اپنے آپ کو مکمل طورپر امن کے حدود میں قائم رکھے۔ جنگ کے لیے اسلام نے جو شرطیں مقرر کی ہیں ان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناگزیر حالت میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے۔ جنگ کی دوسری قسمیں مثلاً گوریلا وار، پرا کسی وار، بلا اعلان وار اور جارحانہ وار اسلام میں ہرگز جائز نہیں۔

اسلام کا اقدامی عمل دعوت ہے نہ کہ جنگ۔ اسلام کا نشانہ انسان کو زندگی دینا ہے۔ انسان کو جہنم سے بچا کر جنت کا راستہ دکھانا ہے۔ انسان کو غیر خدا پرستی سے نکال کر خدا پرستی کی طرف لانا ہے۔ انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفات پیدا کرنا ہے جو اس کو جنت میں داخلہ کا مستحق قرار دے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا اقدامی عمل کامل طورپر ایک تعمیری عمل ہے اور کوئی تعمیری عمل صرف پر امن ذرائع سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

خطاب کے آخر میں سوال و جواب کا پروگر ام تھا۔ سامعین نے ٹیلی فون پر سوالات کئے اور میں نے ٹیلی فون پر ان کے جوابات دئے۔ ایک سوال یہ تھا کہ حال میں مجاہدین نے عراق وغیرہ میں کچھ لوگوں کو پکڑا۔ انہوں نے ان کوچند دن یرغمال بنا کر رکھا اور پھر ان کے سر کاٹ کر انہیں ہلاک کردیا۔ ان واقعات کی رپورٹیں تصویر کے ساتھ مغربی میڈیا میں کثرت سے آئی ہیں اور ان کی وجہ سے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اسلام ایک وحشیانہ مذہب ہے۔ میں نے کہا کہ اس طرح یرغمال بنانا اور گن یا تلوار کے ذریعہ انہیں ہلاک کرنا سراسر ایک حرام فعل ہے۔ اسلام کے نام پر کرنے کی وجہ سے ایسا عمل جائز نہیں ہوسکتا۔ اسلام میں سزا کا معاملہ مکمل طورپر ایک عدالتی معاملہ ہے۔ عدالت کے سوا کسی دوسرے کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ بطور خود کسی کو مجرم قرار دے کر اس کی گردن کاٹے یا اس کو گولی مار دے۔ عدالتی سزا کے لیے بھی شہادت ضروری ہے۔ کوئی شخص اگر جرم کا فعل کرتا ہے تو وہ عدالت کے سامنے پیش ہوگا۔ معاملہ کی تحقیق اور گواہوں کی گواہی کے بعد عدالت اپنا فیصلہ دے گی۔ اور حکومت اس کو طاقت کے ذریعہ نافذ کرے گی۔ اسلام میں جرم پر سزا کی اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں۔

ایک صاحب نے اس فلسطینی تحریک کے بارے میں سوال کیا جس کو انتفاضہ (resurgence) کہا جاتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ اسلامی نقطۂ نظر سے اس تحریک کا حکم کیا ہے۔ میں نے کہا کہ انتفاضہ کی موجودہ تحریک میرے نزدیک ایک غیر اسلامی تحریک ہے۔ یہ تحریک متشددانہ طریق کار کے اصول پر قائم ہے۔ یہی چیز اس کو غیر اسلامی بنا دیتی ہے۔ کیوں کہ کسی قومی یا سیاسی مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانا صرف ایک قائم شدہ حکومت کے لیے جائز ہے۔ غیر حکومتی افراد یا تنظیموں کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ کسی کو دشمن قرار دے کر اس کے خلاف ہتھیار اٹھائیں۔ اور جیسا کہ معلوم ہے، انتفاضہ کی تحریک غیرحکومتی افراد چلا رہے ہیں نہ کہ کوئی قائم شدہ حکومت۔

انتفاضہ سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ راستہ کھلاہوا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے لیے پر امن تحریک چلائیں مگر کسی بھی عذر کی بنا پر ہتھیار اٹھانا ان کے لیے جائز نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom