مستقبل کا انتظار

کوئی شخص اگر مجھ سے پوچھے کہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے سب سے زیادہ یقینی فارمولا ایک لفظ میں کیا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ سنگل پوائنٹ فارمولا صبر ہے۔ صبر کو اس معاملہ میں مشکل کُشا کی حیثیت حاصل ہے۔ تدبیر کار سمجھ میں آئے یا نہ سمجھ میں آئے، دونوں حالتوں میں صبر کرلیناہی آخر کار کامیاب ہونے کے لیے کافی ہے۔

صبر کیا ہے۔ صبر نہ تو بے ہمتی ہے اور نہ بے عملی۔ صبر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک گہری عملی تدبیر ہے۔ صبر اُسی طرح ایک تدبیری عمل ہے جس طرح دوسرا کوئی عمل تدبیری عمل ہوتا ہے۔ دونوں کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ بے صبر آدمی نتیجہ کو حال میں پانا چاہتا ہے۔ اور صبر والا آدمی نتیجہ کے معاملہ کو مستقبل کے خانہ میں ڈال دیتا ہے۔ ایک اُردو شاعر نے کہا ہے:

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں  ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

یہ بظاہر ایک شاعرانہ بات ہے۔ مگر وہ شاعرانہ اُسلوب میں ایک فطری حقیقت کا اظہار ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام تعمیر کے اصول پر بنایا گیا ہے۔ یہاں ہر تخریب کے بعد اپنے آپ ایسے اسباب فراہم ہونے لگتے ہیں جو اس کی نئی تعمیر کر سکیں۔ ایسی حالت میں صبر کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کی تعمیری طاقتوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے کام کو تکمیل تک پہنچا سکیں۔

ہمارے جسم میں اگر کوئی زخم آجائے یا جسمانی نظام میں کوئی خرابی واقع ہوجائے تو جسم کا داخلی نظام اپنے آپ اس کی مرمّت اور درستگی میں لگ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جسم دوبارہ اپنی اصل حالت پر آجاتا ہے۔ یہی معاملہ جسم سے باہر کی زندگی کا ہے۔ انسانی زندگی میں جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے تو فطرت کا نظام اپنے آپ اس کی اصلاح کے لیے متحرک ہوجاتا ہے۔ اگر انسان صبر کرے اور انتظار کی روش اختیار کرے تو جلد ہی وہ دیکھے گا کہ اس کی براہِ راست کوشش کے بغیر سارا مسئلہ اُسی طرح حل ہوگیا ہے جیسا کہ وہ خود چاہتا تھا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom