ایک ملاقات
۲۶ جون ۲۰۰۴ کو جَین ٹی وی (نئی دہلی) میں ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں اَینکر کے علاوہ تین آدمیوں نے حصہ لیا۔ ان کے نام یہ ہیں، پروفیسر امتیاز احمد (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) مسٹر ترن وجے (ایڈیٹر ہندی روزنامہ پانچ جنیہ) اور راقم الحروف۔ اس ڈسکشن کا موضوع ہندو تو اور مسلمان تھا۔
مسٹر ترن وجے نے کہاکہ ہندوتو کوئی مذہبی چیز نہیں، وہ بھارتیتہ کی پہچان ہے۔ اُس کا تعلق ہندو اور مسلمان سب سے ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوتو کو سبھی فرقے اختیار کریں۔ مگر ہمارا یہ ارادہ نہیں کہ ہم اس کو دوسروں کے اوپر زبردستی امپوز (impose) کریں۔
میں نے کہا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہندوتو اگر آپ کا پرسنل ایجنڈہ ہو تو مجھ کو یا کسی کو اُس پر کوئی اعتراض (objection) نہ ہوگا۔ لیکن اگر آپ ہندوتو کو نیشنل ایجنڈا بنانا چاہیں تو یہ ایک قابلِ اعتراض بات ہوگی۔ کیوں کہ پرسنل ایجنڈا اور نیشنل ایجنڈا کا معاملہ ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ہمارے ملک میں آزادی ہے۔ اس لیے آپ کسی بھی چیز کو اپنا پرسنل ایجنڈا بنا سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ دوسروں کے لیے ضرر رساں (harmful) نہ ہو۔
مگر جہاں تک نیشنل ایجنڈا کی بات ہے، اس کو آپ صرف اپنی خواہش کے تحت نہیں مقرر کر سکتے۔ نیشنل ایجنڈا اسی چیز کی بنیاد پر بن سکتاہے جو دستورِ ہند میں تسلیم کیا گیا ہو، ملک کی پارلیمنٹ نے اس کے حق میں قانون وضع کیا ہو یا سپریم کورٹ نے اُس کے حق میں اپنا فیصلہ دیا ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندو تو کا لفظ صرف ایک پارٹی کا لفظ ہے۔ دستور یا پارلیمنٹ یا عدالت نے ابھی تک اُس کو سندِ جواز عطا نہیں کی۔ ایسی حالت میں اگر آپ ہندوتو کو نیشنل ایجنڈا بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو سب سے پہلے ملک کے دستور کو بدلنا چاہیے۔ پارٹی کے اسٹیج سے اس پر تقریر کرنا کوئی معنٰی نہیں رکھتا۔
میں نے کہا کہ آپ کا یہ کہنا درست نہیں کہ آپ اس کو زبردستی امپوز کرنا نہیں چاہتے۔ ہندو تو جیسا ایک پروگرام کوئی سادہ پروگرام نہیں، وہ اپنے آپ میں اس کا طالب ہے کہ اس کو امپوز کیا جائے۔ پھر میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اجودھیا میں رام مندر بنانا بھی ہندوتو کے ایجنڈہ کا ایک حصہ تھا۔ پھر آپ نے وہاں کیا کیا۔ آپ نے وہی کیا جس کو ’’امپوز‘‘ کرنا کہتے ہیں۔ آپ لوگ ایک بھیڑ کی صورت میں اجودھیا میں گھس گئے اور ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو یہ کیا کہ بابری مسجد توڑ کر وہاں ایک عارضی مندر بنادیا۔ حالاں کہ یہ معاملہ ابھی تک عدالت میں زیرِ سماعت تھا۔ آپ لوگوں نے اجودھیا میں جو کچھ کیا اسی کا نام امپوز کرنا ہے۔
میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ ہندوتو کی صداقت پر یقین رکھتے ہوں تو آپ لوگ اپنی ذاتی زندگی میں ضرور اس کو استعمال کریں۔ مگر نیشنل لائف میں اس کو نافذ کرنا دستور، قانون، عدالت، کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔ مزید یہ کہ آپ لوگوں کے لیے ہندوتو کا پروگر ام اب محض ایک نعرہ بن کر رہ گیا۔ آپ لوگوں کا پروگرام یہ تھا کہ ہندوتوکے نام پر ووٹ لے کر ملک میں حکومت بنانا اور ہندوتو کے اصول پر اُس کا نقشہ بدلنا۔
مگر انتخابات کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ آپ لوگوں کے لیے سرے سے ممکن نہیں۔ مئی ۲۰۰۴ کے الیکشن میں یہ بات آخری طورپر ثابت ہوچکی ہے کہ ہندوتو کا گروہ اس ملک میں اقلیت کی حیثیت رکھتا ہے۔سب لوگ جانتے ہیں کہ تعلیم یافتہ ہندو آپ لوگوں کی حمایت نہیں کرتے۔ نچلی ذات کے ہندو آپ کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ مسلمان اور عیسائی آپ کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی حالت میں یہ ناممکن ہے کہ آپ پارلیمنٹ میں مطلق اکثریت میں آسکیں اور جب تک آپ کو مطلق اکثریت حاصل نہ ہو، ہندوتو کو نیشنل ایجنڈہ بنانا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
میں نے کہا کہ مشہور انگریزی مقولہ ہے—سیاست ممکن کا کھیل ہے، وہ ناممکن کا کھیل نہیں:
Politics is the art of the possible.
یہ فطرت کا ایک اُصول ہے۔ کوئی بھی اس کو بدل نہیں سکتا۔ ایسی حالت میں کسی ناممکن اِشو کو لے کر اُس پر سیاست چلانا اپنا وقت بھی ضائع کرنا ہے اور دوسروں کا وقت بھی ضائع کرنا۔