ایک خط
برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کے وطن ناگپور سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کا نام یہ ہے: ’’حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی صاحب عرف علی میاں صاحب کے خطوط حضرت مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب کے نام‘‘۔
۳۹۳ صفحات کی یہ کتاب ستمبر ۱۹۹۹ میں چھپی ہے۔ اس مجموعہ میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کے ۲۲۱ خطوط شامل ہیں۔ اس کے خط نمبر ۱۱۳ میں راقم الحروف کی کتابوں کے بارے میں منفی رائے دیتے ہوئے تحریر ہے:
میں یہ خط اس ضرورت سے بھی لکھ رہا ہوں کہ میرے پاس حیدر آباد سے ایک فہیم و سنجیدہ دوست کا خط آیا ہے کہ ’’ندوۃ ایجنسی‘‘ کے نام سے سیدجمیل الدین صاحب کی طرف سے جو اشتہار شائع ہوا ہے اس کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس میں میری کتابوں کے علاوہ جہاں بعض اور دوسرے حضرات کی تصنیفات کا تذکرہ ہے ان میں مولوی وحید الدین خاں کی کتابوں کے دستیاب ہونے کا بھی اعلان ہے۔ میں سید جمیل الدین صاحب کو براہِ راست نہیں لکھنا چاہتا۔ آپ اشارہ کردیں کہ مولوی وحیدالدین خاں صاحب کے بہت سے خیالات سے اتفاق نہیں، ہماری اور ان کی کتابوں کا جوڑ نہیں۔ اس لیے آئندہ سید جمیل الدین صاحب اس کا لحاظ رکھیں، آپ اپنے انداز میں مناسب طریقہ سے لکھ دیجئے گا۔ مجھے مولوی وحید الدین خاں صاحب سے کوئی ذاتی خصومت نہیں۔ لیکن ان کے خیالات میں سخت ناہمواری اور بے اعتدالی ہے اور سلف و مجاہدین و شہدائے اسلام سے بدعقیدگی پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (صفحہ ۲۰۴)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی اس بات پر مجھے کوئی ذاتی شکایت نہیں البتہ اس کو پڑھ کر تعجب ضرور ہوا۔ یہ الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرت مولانا اس چیز سے کس قدر محروم تھے جس کو حدیث میں بصیرت زمانہ کہاگیا ہے۔ حضرت مولانا یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے ادارہ کی کتابوں کو نہ پڑھیں۔ حالاں کہ اب وہ زمانہ آچکا ہے کہ لوگ صرف ہمارے ادارہ ہی کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ حضرت مولانا کے مذکورہ الفاظ تاریخ کے دھارے سے ٹکرانے کے ہم معنٰی ہیں۔ حالانکہ کوئی بھی شخص اتنا طاقتور نہیں کہ وہ تاریخ کے دھارے سے ٹکرا سکے۔
یہ بلا شبہہ نہایت اہم بات ہے۔ کوئی شخص آج اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے۔ مگر عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب کہ یہ حقیقت اتنی زیادہ مبرہن ہوچکی ہوگی کہ اس کو نہ ماننا خود اپنی بے خبری کے اشتہار کے ہم معنٰی بن جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ سلطان ٹیپو سے لے کر یاسر عرفات تک کازمانہ وہ زمانہ تھا جب کہ ساری دنیا کے مسلمانوں پر جہاد (بمعنیٰ قتال) کا نقطۂ نظر چھایا ہوا تھا۔ ساری دنیا کے مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ مسلح جہاد ہی مسلمانوں کے مسئلہ کا واحد حل ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ہر عمل کو جاری رکھنے کے لیے اس کی پشت پر ایک ایسا لٹریچر درکار ہوتا ہے جو اس کے لیے فکری تائید کا کام کرے۔ پچھلے زمانہ میں پیدا ہونے والا جہادی لٹریچر یہی کام کررہا تھا۔ اس بنا پر مسلمانوں کے درمیان اس کو عمومی مقبولیت حاصل ہوئی۔
مگر اب عسکریت پسندی کا یہ دور ختم ہوگیا۔ اس لیے اب وہ لٹریچر بھی غیر متعلق (irrelevant) بن چکا ہے جو مسلح جہاد کے لیے فکری جواز (ideological justification) فراہم کررہا تھا۔ شہدائے سیاست کو ماڈل بنا کر جو نام نہاد انقلابی لٹریچر تیار کیا گیا تھا وہ حالات کی تبدیلی کے بعد اب ایک فرسودہ (obsolete) لٹریچر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
مسلح جہاد کی مکمل ناکامی کو دیکھ کر ا ب ساری دنیا کے مسلمانوں میں ایک نیا ذہن ابھرا ہے۔ یہ امن پسندی کا ذہن ہے۔ اب ساری دنیا کے مسلمان مسلح طریق کار کو چھوڑ کر پر امن طریق کار کو اپنا رہے ہیں۔ اس تبدیلی کا ثبوت پوری مسلم دنیا میں دیکھا جاسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نئے لٹریچر کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا لٹریچر جو پر امن طریق عمل کے حق میں فکری تائید فراہم کرتا ہو۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہمارے ادارہ نے جو لٹریچر تیا رکیا ہے وہ عین یہی لٹریچر ہے۔ وہ پر امن طریق عمل کے حق میں طاقتور فکری تائید کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں ہمارے ادارہ کی مطبوعات وقت کی مانگ کا جواب ہیں۔ اور جوچیز وقت کی مانگ کا جواب ہو اس کو کسی مخالف کی مخالفت یا کسی مفتی کا فتویٰ لوگوں تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔
اس سلسلہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ حضرت مولانا علی میاں نے راقم الحروف کی کتابوں کے بارہ میں جو منفی رائے دی ہے وہ مکمل طورپر بلا دلیل ہے۔ میرے علم کے مطابق، حضرت مولانا نے نہ اس مجموعۂ خطوط میں اور نہ اپنی کسی دوسری تحریر میں یہ بتایا ہے کہ میرے کون سے خیالات ہیں جوان کے نزدیک غلط ہیں اور وہ کس دلیل کی بنیاد پر غلط ہیں۔ حضرت مولانا کی یہ روش یقینی طورپر غیر اسلامی ہے۔
اس دنیا میں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے۔ رسول اور اصحابِ رسول کے بعد کسی بھی شخص پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ مگر ناقد کے لیے فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ اپنی تنقید کے حق میں باقاعدہ حوالہ دے اور دلیل کے ذریعہ اُس کو برحق ثابت کرے۔ مدلل تنقید بلا شبہہ ایک جائز فعل ہے لیکن غیر مدلل تنقید یقینی طورپر جائز نہیں۔ حدیث کے مطابق، ایک مسلمان کی عِرض دوسرے مسلمان پر حرام ہے (کل المسلم علی المسلم حرام، دمہ ومالہ وعرضہ) مذکورہ قسم کی غیر مدلل تنقید بلا شبہہ ایک مسلم کی عِرض پر حملہ ہے۔ حضرت مولانا کا مذکورہ مکتوب اسی محرم فعل کے ارتکاب کے ہم معنٰی ہے۔ اس معاملہ میں کوئی بھی توجیہہ اس کے جواز کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔
نئی دہلی، ۳۱ جنوری ۲۰۰۵ وحید الدین