عُسر میں یُسر

أَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَكَ صَدۡرَكَ ١ وَوَضَعۡنَا عَنكَ وِزۡرَكَ ٢ٱلَّذِيٓ أَنقَضَ ظَهۡرَكَ ٣ وَرَفَعۡنَا لَكَ ذِكۡرَكَ ٤ فَإِنَّ مَعَ ٱلۡعُسۡرِ يُسۡرًا ٥ إِنَّ مَعَ ٱلۡعُسۡرِ يُسۡرٗا ٦ فَإِذَا فَرَغۡتَ فَٱنصَبۡ ٧ وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَٱرۡغَب ٨

 [الشرح: ۸-۱]

کیا ہم نے تمہار اسینہ تمہارے لیے     کھول نہیں دیا۔ اور تمہارا وہ بوجھ اتار دیا جو تمہاری پیٹھ توڑ رہا تھا۔ اور ہم نے تمہارا ذکر بلند کیا۔ پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ پس جب تم فارغ ہو جاؤ تو محنت کرو، اور اپنے رب کی طرف توجہ رکھو (الانشراح)

یہ سورہ مکہ کے ابتدائی زمانےمیں اتری ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جب دعوت توحید کا آغاز کیا تو یہ ان تمام لوگوں کو دینی لحاظ سے غیر معتبر ٹھہرانے کے ہم معنی تھا جو غیر اللہ  کی   بنیاد پر بڑائی اور سرداری کا مقام حاصل کئے ہوئے تھے۔ چنانچہ یہ لوگ آپ کے سخت دشمن ہو گئے۔ وہ آپ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچانے لگے۔ اس صورت حال نے آپ کو سخت پریشانی میں مبتلا کر دیا۔

 اس وقت اس سورہ کے ذریعے آپ کو ایک سنت الہٰی سے باخبر کیا گیا۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں یسر کا رشتہ عسرسے بندھا ہوا ہے ۔ اس دنیا میں مشکل کا پیش آنا کسی نئی آسانی کی تمہید ہوتا ہے ، بشرط یہ کہ آدمی حوصلہ نہ کھوئے اور آنے والے بہتر مستقبل کا انتظار کر سکے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت سے پہلے یہ مرحلہ گزرا کہ آپ حق کی تلاش میں سخت سرگردا ں ہوئے۔ وقت کے ماحول اور مروجہ مذہب میں آپ کو اطمینان نہیں مل رہا تھا۔ "سچائی کیا ہے "۔ اس  سوال نے آپ کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کر دیا ۔ یہ اضطراب اگر چہ ابتداءً "عسر "تھا، مگر اس کے اندر "یسر" کا پہلو نکل آیا ۔ کیوں کہ اس نے آپ کو خشک زمین کی مانند بنا دیا تاکہ جب  وحی  کی صورت میں ہدایت آئے تو اس کی ایک ایک بوند آپ کے اندر جذب ہوتی چلی جائے۔ آپ بھر پور طور پر اس کو اخذ کر لیں ۔ وہ پوری طرح آپ کے ذہن کو واضح اور روشن کر دے۔

 دوسری چیز جو مذکورہ سنت کے لیے     بطور مثال پیش کی گئی ، وہ رفعِ ذکر کا معاملہ ہے۔ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید سے جن لوگوں کو مخالفت پیدا ہوئی، انھوں نے اس کو نا کام کرنے کے لیے     دعوت اور صاحبِ دعوت کو بد نام کرنے کی مہم شروع کر دی۔ وہ آپ کے خلاف اشعار کہہ کر اس کو پھیلاتے جو گویا اس زمانہ کی صحافت تھی۔ میلے اور بازار جو گو یا اس زمانہ کے اجتماعات تھے، وہاں جا کر وہ لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑکاتے ۔ وہ لوگوں کے سامنے آپ کی بری تصویر پیش کرتے تا کہ وہ آپ سے اور آپ کے سچے مشن سے بدگمان ہو جائیں۔

 مخالفین نے عیب جوئی اور الزام تراشی کی جو مہم چلائی ، اس کا مقصد ان کے اپنے خیال کے مطابق یہ تھا کہ صاحب دعوت کو بد نام کریں اور اس طرح لوگوں کو آپ کی دعوت سے متوحش کر دیں۔ مگر اس عسر میں بھی یسر کا پہلو نکل آیا۔ مخالفین کے نزدیک وہ آپ کو بد نام کرنے کی کوشش تھی ، مگر دوسروں کے لیے     وہ تجسس کے ہم معنی بن گئی۔ اس طرح آپ کی شخصیت نہایت  وسیع  پیمانے پر لوگوں کے سامنے سوال بن کر کھڑی ہو گئی۔ ہر آدمی تفصیلی طور پر یہ جاننے کا طالب بن گیا کہ محمد کون ہیں  اور ان کی دعوت کیا ہے۔

انسانی فطرت کبھی جزئی مسئلہ پر قانع نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ پوری بات جاننا چاہتی ہے۔ چنانچہ آپ کے خلاف کچھ باتیں سن کر لوگ اتنے ہی پر رک نہیں جاتے تھے ، بلکہ وہ دعوت اور صاحب دعوت کے بارے   میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے     براہ راست تحقیق کرتے تھے۔ وہ آپ سے ملتے اور قرآن کا مطالعہ کرتے۔ اس طرح مخالفین کی مخالفت کا یہ نتیجہ ہوا کہ آپ کی دعوت ان دور دور کے حلقوں میں پہنچ گئی جہاں آپ خود ابھی تک اس کو نہیں پہنچا سکے تھے۔ مخالفین نے آپ کو بد نام کر کے آپ کے بارے   میں لوگوں کے اندر شوق ِتحقیق پیدا کیا ۔ اور جب ان لوگوں نے براہ راست تحقیق کی تو ان میں سے بہت سے لوگ آپ کی دعوت کو حق پاکر اس کے حامی بن گئے۔

اس سورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ عسر کے یُسر میں تبدیل ہونے کا  دو تجربہ تم کر چکے ہو ––––––  تلاش حق کی بے چینی کے بعد ہدایت کا ملنا ، بد نامی کی مہم سے اشاعت ِدعوت کے نئے مواقع پیدا ہونا۔ اسی طرح اس سنت الہٰی کا تیسرا ظہور بھی عنقریب تمہارے سامنے آجائے گا۔ حالات کی فطری رفتار کو اپنی حد  پر پہنچنے دو اور مستقبل کے ظہور تک صبر کے ساتھ اس کا انتظار کرو۔

اس تیسرے دور سے مراد دعوت اور صاحب دعوت کا نزاعی دورسے نکل کر مسلّمہ دور میں داخل ہونا ہے۔ جس کو سورہ نصر میں "فتح "سے تعبیر کیا گیا ہے۔ موجودہ دور نزاع میں جو سخت حالات پیش آرہے ہیں، وہ آنے والے یسر کی تمہید ہیں۔ اس طرح وہ تمام ضروری اسباب جمع کئے جارہے ہیں کہ آئندہ جب مرحلۂ استحکام آئے تو وہ حقیقی معنوں میں استحکام اور ثبات بن سکے۔

 اس عمل کے دوران دعوت کے تمام پہلو پوری طرح واضح ہو جائیں ۔ سچے  انسان اور جھوٹے انسان ایک دوسرے سے الگ کر دیے جائیں۔ یہ معلوم ہو جائے کہ کون واقعی معنوں میں حق کا طالب ہے اور وہ کون لوگ ہیں جو حق کا نام صرف اس لیے     لیتے ہیں کہ اس کی آڑ میں اپنا ذاتی مفاد حاصل کر سکیں ۔ گم  نامی میں پڑے ہوئے جوا ہر نکھر اٹھیں اور مصنوعی شہرت کا لبادہ اوڑھنے والے لوگ بے نقاب ہو جائیں۔

نیز یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کی فکر کو ماحول میں غلبہ حاصل ہو تو اس طرح ہو کہ وہ ان کا ایک ثابت شدہ حق بن چکا ہو ، اور اسی طرح جب آپ کے مخالفین کو مغلوب کیا جائے تو یہ مغلوبیت اس طرح آئے کہ وہ لوگوں کو ایک کھلی ہوئی تاریخی ضرورت دکھائی دینے لگے۔

عُسر  میں یُسر کا یہ تجربہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا، یہی آئندہ بھی آپ کے امتیوں کو ہوتا رہے گا ، بشرطیکہ وہ اسی صراط مستقیم پر چلیں جس پر آپ چلے  اور اسی صبر اور استقامت کا ثبوت دے سکیں جس کا ثبوت آپ نے اپنے زمانےمیں دیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom