إذن الله
قرآن میں ہے : كَم مِّن فِئَةٖ قَلِيلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةٗ كَثِيرَةَۢ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۗ [البقرة: 249] (کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آتی ہیں، البقرہ ۲۴۹) یہ موجودہ دنیا کے لیے اللہ کا قانون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں عزت اور برتری صرف انہیں لوگوں کا مقدر نہیں ہے جو تعداد اور وسائل میں زیادہ ہوں۔ یہاں کم تعداد اور کم وسائل والا گروہ بھی عزت اور سر بلندی حاصل کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اذن اللہ کی پیروی کرے ۔
یہ اذن اللہ یا خدائی قانون کیا ہے، وہ الرعد( آیت ۱۷) کے مطابق یہ ہے کہ جو چیز لوگوں کو نفع پہنچانے والی ہے ، وہ زمین میں ٹھہراؤ اور استحکام حاصل کرتی ہے ۔وَأَمَّا مَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ فَيَمۡكُثُ فِي ٱلۡأَرۡضِۚ [الرعد: 17] یہی بات حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے (الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى)یعنی جو ہاتھ دوسروں کو دیتا ہے ، وہ اس سے بہتر ہے جو دوسروں سے لینے والا ہے۔ اس کو ایک لفظ میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ سماج میں ہمیشہ دو قسم کے گروہ ہوتے ہیں۔ ایک دینے والا گروهGiver group)) اور دوسرا لینے والا گروہ (Taker group) زندگی کا یہ ابدی قانون ہے کہ جو گروہ لینے والا ہو اس کو اس دنیا میں پستی اور مغلوبیت کی سطح پر جگہ ملے۔ اور جو گروہ دینے والا گروہ بنے ،اس کو دوسروں کے اوپر عزت اور برتری کا مقام حاصل ہو ۔
موجودہ زمانے میں مسلم رہنماؤں نے احیاء ملت کے نام سے تو تحریکیں اٹھائیں ، وہ زندگی کے اس شعور سے یکسر خالی تھیں۔ یہ لوگ اس بات کو نہ جان سکے کہ مسلمانوں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ انھیں تخلیقی گروہ کی حیثیت سے اٹھایا جائے ۔ اس کے بجائے انھوں نے مسلمانوں کو علاحدگی پسند گروہ (Separatist group) کے طور پر اٹھانے کی کوشش کی ۔ ۱۹۴۷ سے پہلے اس علاحدگی پسندی کا اظہار جغرافیائی تقسیم کی شکل میں ہوا، اور ۱۹۴۷ کے بعد ملی تشخص کی حفاظت کی صورت میں ہو رہا ہے۔
مسلمانوں کی ترقی کا راز علاحدگی پسندی میں نہیں بلکہ آفاقیت پسندی میں ہے۔ انہیں تخلیقی گروہ بننا ہے نہ کہ جامد گروہ ۔ انھیں اپنا امتیاز خارجی مظاہر میں نہیں بلکہ معنوی حقیقتوں میں قائم کرنا ہے۔ وہ نفع بخشی کی زمین پر کھڑے ہو سکتے ہیں نہ کہ حقوق طلبی کی زمین پر۔