ایک نمونہ
مسٹرششی پرشاد گوئل (۲۲ سال) میرٹھ کے رہنے والے ہیں ۔ ۱۹۸۹ کے سول سروسز امتحانات میں انھوں نے ٹاپ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی اے ایس میں شرکت سے ان کا مقصد روپیہ کمانا نہیں ہے۔ بلکہ اس جاب کی باعزت حیثیت (Dignified status) ان کے لیے کشش کا باعث ہوئی ۔
مسٹر گوئل کا ایک انٹرویو ٹائمس آف انڈیا (۸ جون ۱۹۸۹) میں چھپا ہے۔ اس میں انھوں نے جو باتیں کہیں ، ان میں سے ایک یہ تھی کہ سول سروس میں داخل ہونے کا ذہن ان کے اندر اس وقت بنا جب کہ انھوں نے مسٹر جاوید عثمانی کا انٹرویو پڑھا۔ مسٹر عثمانی نے محض اپنی ذاتی محنت سے ۱۹۸۱ کے سول سروس امتحان میں ٹاپ کیا تھا ۔ وہ ان کے نمونےسے اتنا زیادہ متاثر ہوئے کہ اس وقت سے ان کا یہ ذہن بن گیا کہ ایک شخص سول سروس کے ذریعہ قوم کی زیادہ بہتر خدمت کر سکتا ہے :
His mind was made up after he read the interview of Mr. Javed Usmani, the topper in the civil services examinations in 1981. "I was so inspired by his example that since that day I have thought that one can serve the nation best only through the civil services" (p. 3).
مسٹر جاوید عثمانی کے پاس کہنے کے لیے اگر یہ ہوتا کہ اس ملک میں تعصب ہے ، یہاں ان کے لیےترقی کے مواقع نہیں ہیں، تو مسٹر گوئل کو ان کے کلام سے کوئی تحریک نہ ملتی۔ مگر جب انھوں نے تعصب کو نظر انداز کر کے محنت کو ترقی کا زینہ بتایا تو مسٹر گوئل کو اس میں خود اپنی ترقی کا نسخہ مل گیا۔ اس کواختیار کر کے وہ ایک باعزت عہدہ تک پہونچ گئے ۔
آج مسلمان اس ملک میں احتجاجی گروہ (Protestant group) بنے ہوئے ہیں۔ اگر وہ مسٹر جاوید عثمانی کی طرح اپنی افادیت ثابت کریں تو وہ اس ملک میں تخلیقی گروه (Creative group) بن جائیں گے ۔ احتجاجی لوگ نہ اپنے آپ کو کچھ دیتے ہیں اور نہ دوسروں کو ۔ مگر جو لوگ تخلیقی گروہ کی حیثیت حاصل کر لیں وہ خود بھی پاتے ہیں اور دوسروں کو بھی دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے اس ملک میں تخلیقی گروہ بنے کے امکانات پوری طرح موجود تھے۔ مگر ان کے لیڈروں کی جھوٹی سیاست نے انھیں اس کےسوا کسی قابل نہ رکھا کہ وہ اس ملک میں بے اثر احتجاجی گروہ بن کر رہ جائیں ۔