مواقع کی بربادی
انڈین نیشنل کانگریس ۱۹ ویں صدی کے آخر میں قائم ہوئی۔ اس کا پہلاسشن ۲۸ دسمبر ۱۸۸۵ کو بمبئی میں منعقد ہوا۔ اس سشن میں کل ۷۲ ڈیلی گیٹ شریک تھے ۔ اس سشن کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ لندن کے اخبار ٹائمس (The Times) میں اس کی خبر شائع ہوئی تو انگریز نامہ نگار نے اس کی رپورٹ دیتے ہوئے مزید یہ الفاظ لکھے کہ اس اجتماع میں جو بات سب سے زیادہ محسوس ہوئی وہ یہ کہ اس میں ایک عظیم نسل موجود ہی نہ تھی ، یعنی ہندستانی مسلمان :
Only one great race was conspicuous by its absence; the Mahomedans of India were not there.
M.J. Akbar, Nehru: The Making of India, (p. 46).
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سو برس پہلے اس ملک میں مسلمانوں کا مقام کتنا اونچا تھا ۔کوئی سیاسی اجتماع یا کوئی سیاسی فیصلہ اس وقت تک نامکمل سمجھا جاتا تھا جب تک مسلمانوں کے نمائندہ افراداس میں شریک نہ ہوں ۔
تاہم" ۱۸۸۵ " میں مسلمانوں کا یہ مقام ان کے حال کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ یہ صرف ان کے ماضی کی بنیاد پر تھا۔ یعنی اس وقت مسلمانوں کے جو رہنما موجود تھے ، ان کی اپنی بنائی ہوئی تاریخ کی وجہ سے انہیں یہ بلند مقام نہیں ملا تھا ، بلکہ مسلمانوں کی سابقہ تاریخ کی بنا پریہ مقام ان کے حصہ میں آیا تھا ۔ یہ در اصل گزری ہوئی تاریخ کا تسلسل تھا جو اتفاقی طور پر ان کو حاصل ہو گیا۔
مگروہ ماضی کے اس قیمتی اثاثہ کی قدر نہ کر سکے۔ انیسویں صدی کے نصف ثانی اور بیسویں صدی کے نصف اول کے مسلم رہنماؤں نے اس کو مکمل طور پر کھو دیا ۔ اگر وہ حاصل شدہ وسائل اور امکانی مواقع دونوں کو اچھی طرح سمجھتے اور حقیقت پسندانہ انداز سے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرتے تو یقیناً آج مسلمانوں کی تاریخ دوسری ہوتی ۔ مگر اس معاملہ میں ان کا حال اس نالائق اولاد کا ہوا جو اپنے باپ کی وراثت میں ایک بڑا سرمایہ پائے اور پھر اس کو جھوٹی سرگرمیوں میں خرچ کر کے ضائع کر دے۔ یہاں تک کہ آخر میں اس کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہے ۔