الٹی تفسیر
قرآن کی سورہ الفتح میں اس واقعہ پر تبصرہ ہے جس کو اسلام کی تاریخ میں صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔اس کی چند آیتوں کا ترجمہ یہ ہے :
اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب کہ وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے ، اللہ کو معلوم تھا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا، پس اللہ نے ان پر اطمینان (سکینت) اتارا اور ان کو ایک قریبی فتح دے دی۔ اور بہت سی غنیمت بھی جس کو وہ لیں گے ، اور اللہ زبردست ہے ، حکمت والا ہے۔ اللہ نے تم سے بہت سی غنیمت کا وعدہ کیا ہے جس کو تم لو گے ۔ تو یہ تم کو فوراً دے دیا ۔ اور اس لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے، اور تاکہ یہ اہل ایمان کے لیے ایک نشانی ہو اور تاکہ اللہ نےتم کو صراط مستقیم دکھائے (الفتح ۱۸ – ۲۰)
اردو کے ایک مفسر قرآن نے ان آیات میں سکینت اور صراط مستقیم پر جو تفسیری نوٹ لکھا ہےوہ ان کے الفاظ میں حسب ذیل ہے :
"یہاں سکینت سے مراد دل کی وہ کیفیت ہے جس کی بناپر ایک شخص کسی مقصد عظیم کے لیے ٹھنڈے دل سے پورے سکون واطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو خطرہ کے منہ میں جھونک دیتا ہے ۔ اور کسی خوف یا گھبراہٹ کے بغیر فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ کام بہر حال کرنے کا ہے خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔
یعنی تمہیں مزید بصیرت اور یقین حاصل ہو، اور آئندہ تم اسی طرح اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو۔ اور اللہ کے اعتماد پر راہ حق میں پیش قدمی کرتے چلے جاؤ۔ اور یہ تجربات تمہیں یہ سبق سکھا دیں کہ خدا کا دین جس اقدام کا تقاضا کر رہا ہو، مومن کا کام یہ ہے کہ خدا کے بھروسے پر وہ اقدام کر ڈالے ، اس حیص بیص میں نہ لگ جائے کہ میری طاقت کتنی ہے اور باطل کی طاقتوں کا زور کتنا ہے" ۔
اس موقع پر سکینت اور صراط مستقیم کی یہ تفسیر بالکل الٹی تفسیر ہے۔ یہاں سکینت سے مراد یہ ہے کہ دشمن کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود ان کا سکون قلب برہم نہیں ہوا۔ انتہائی نازک حالات میں بھی وہ ردِّ عمل کی نفسیات میں مبتلا نہیں ہوئے ۔ یہاں سکینت کا مطلب "نتیجہ کی پروا کیے بغیر اپنے آپ کو خطرات میں جھونک دینا " نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب اس کے بالکل بر عکس ہے۔ اس سے مراد اپنے آپ کو ضد سے اور اس منفی نفسیات سے بچانا ہے جب کہ آدمی یہ نادانی کرتا ہے کہ وہ نتیجہ کی پروا کیے بغیر اپنے آپ کو خطرہ کے منہ میں جھونک دیتا ہے۔
یہی معاملہ صراط مستقیم دکھانے کا بھی ہے۔ اس آیت میں صراط مستقیم سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی"بس اقدام کر ڈالے ، وہ اس حیص بیص میں نہ پڑے کہ میری طاقت کتنی ہے اور باطل کا زور کتنا" اس آیت کا مطلب اس کے بالکل برعکس ہے جو مذکورہ تفسیری نوٹ میں پر جوش الفاظ میں بتایا گیا ہے۔ اس کا اصل مطلب اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہونا ہے۔ صلح حدیبیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے واقعاتی طور پر مسلمانوں کو یہ راستہ دکھا یا کہ کامیابی کا راز اکثر اوقات ٹکر اؤ میں نہیں ہوتا ، بلکہ ٹکراؤ سے اعراض میں ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آیت کا اگر وہ مفہوم لیا جائے جو مذکورہ تفسیر میں بتایا گیا ہے تو اس کو سب سے پہلی خلاف ورزی کرنے والے خود رسول اور اصحاب رسول قرار پائیں گے جن کے اوپر قرآن کی یہ آیت اتری ۔ کیوں کہ" حدیبیہ" کے موقع پر انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ وہ مخالفین کی مخالفتوں کی پروا کیے بغیر عمرہ کا اقدام کر ڈالیں ، وہ ہر حال میں مکہ میں داخل ہو جائیں ، خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔