نئے دور کا آغاز

انگریزی کے ایک مسلم ہفت روزہ نے اپنی اشاعت  ۱- ۷  اکتوبر ۱۹۸۹ کے صفحہ اول کے مضمون میں لکھا ہے کہ بابری مسجد کے اشو کو لے کر آر ایس ایس ، بھارتیہ جنتا پارٹی ، وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل اور شیو سینا مسلسل طور پر مسلمانوں کو مشتعل کرنے والی باتیں کر رہی ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ مسلمان بھڑک کر تشدد کی کارروائی کریں تاکہ انھیں مسلمانوں کے خلاف فساد کرنے کا موقع ملے ۔ مگر مسلمان صبر سے کام لے رہے ہیں۔ وہ اس سے انکار کر رہے ہیں کہ ان کی اشتعال انگیز باتوں سے وہ مشتعل ہو جائیں ، جیسا کہ انہیں کرنا چاہیے :

Muslims are refusing to be provoked, as they should.

آزادی (۱۹۴۷) کے بعد ہندستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ مسلمان بڑے پیمانہ پر صابرانہ پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اشتعال انگیزی کے باوجود وہ مشتعل نہیں ہو رہے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی بالکل پہلی بار پیش آرہا ہے کہ کسی مسلم اخبار کو مسلمانوں کے بارے   میں مذکورہ بالا الفاظ لکھنے کے لیے ملیں۔

ور نہ ۱۹۴۷ کے بعد سے مسلسل اس سے مختلف ذہن ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ مسلمانوں کے تمام رہنما اور دانشور صرف ایک بات بولنا اور لکھنا جانتے تھے ۔ وہ یہ کہ مسلمان جب کسی بات پرمشتعل ہوں تو وہ ان کے مشتعل ہونے کو فطری ردِّعمل قرار دے کر اس کی توجیہ کریں۔ مثلاً اسی مذکورہ انگریزی اخبار نے اپنی اشاعت ۹ جون ۱۹۸۴ میں بھیونڈی اور بمبئی کے علاقہ میں مسلمانوں کے ردِّعمل کا ذکر کیا تھا جس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد ہوا۔ اس وقت مسلمانوں کے ردِّ عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے اخبار مذکور نے لکھا تھا  کہ –––––مگر ایک شخص کو یہ کہنے سے باز نہیں رکھا جاسکتا کہ اس سلسلہ میں ابتدائی اشتعال شیوسینا کے لیڈر کی طرف سےفراہم کیا گیا تھا :

But one need not strain one's commonsense to conclude that

the initial provocation had come from the Shiva Sena chief.

حقیقت یہ ہے کہ چالیس سال سے تمام رہنماؤں اور دانشوروں کو ایک ہی بولی معلوم تھی۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کا ردِّ عمل فطری ہے، کیونکہ وہ فریق ثانی کی طرف سے اشتعال انگیزی کے بعد سامنے آیا ہے ۔ "اشتعال نگیزی کے با وجود مشتعل نہ ہونا " ایک ایسا تصور ہے جو لیڈروں اور دانشوروں کی پوری جماعت کے لیے یکسر لا معلوم تھا۔ اسی بنا پر وہ عام مسلمانوں کے لیے بھی لا معلوم بنا ہوا تھا۔ کیونکہ یہ انہیں بتایا ہی نہیں گیا تھا۔

الرسالہ  نے پچھلے تقریباً پندرہ سال کے اندر اس نئے تصور کو اتنی طاقت کے ساتھ پھیلایا کہ آج وہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کا پسندیدہ فکر بن گیا۔ اس کا عملی ظہور اس طرح شروع ہو چکا ہے کہ ۱۹۸۹ء میں انتہائی گرم ماحول کے باوجود مقابلۃ ً بہت ہی کم فسادات ہوئے ۔ رپور ٹیں بتا رہی ہیں کہ جگہ جگہ مسلمان صبر اور اعراض کی پالیسی کو اختیار کر کے فساد کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے کچھ سطحی  لیڈر اگر چہ اب بھی ردِّعمل کی آگ بھڑکانے میں مشغول ہیں، مگر اللہ تعالٰی الرسالہ کے ذریعہ اس آگ کو مسلسل بجھا رہا ہے  ( المائدہ ۶۴)

الرسالہ مشن کی پیدا کردہ اسی صورت حال کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہمارے اخباروں کو پر فخر طور پر وہ الفاظ لکھنے کو مل رہے ہیں جس کی ایک مثال اوپر نقل کی گئی۔ یہ اخبارات اگر دیانت دار ہوں تو ان کے لیے زیادہ صحیح ہو گا کہ وہ اپنے مضامین میں اس طرح کے الفاظ لکھیں کہ ––––––  ہم نے تو مسلمانوں کو ردِّ عمل کی آگ میں جھونکنے کی پوری کوشش کی تھی، مگر یہ الرسالہ کا کارنامہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کو جوابی اشتعال سے بچا لیا اور وہ فساد کی بھیانک آگ میں جلنے سے محفوظ رہے ۔

بابری مسجد تحریک ہندستان میں جذ باتی انداز کار کا خاتمہ اور حقیقت پسندانہ انداز کار کا آغاز ہے ۔ اس تحریک نے ایک طرف نام نہاد مسلم قیادت کو ہمیشہ کے لیے پیچھے دھکیل دیا۔ اور دوسری طرف اس قیادت کے کھنڈر سے الرسالہ مشن کو نئی طاقت کے ساتھ اُٹھا کر کھڑا کر دیا۔ فللہ الحمد ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom