پیغمبرِ اعظم
محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں خاتم النبیین (الاحزاب ۴۰) کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب سادہ طور پر صرف یہ نہیں ہے کہ آپ نبوت کی فہرست کی آخری کڑی تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبیوں کو بھیجنے سے جو مقاصد مطلوب تھے، وہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ آخری طور پر مکمل کر دیے۔ اسی لیے آپ آخری نبی قرار پائے ۔ آپ کے بعد اب مزید کسی نبی کو بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نبوت کے تمام مقاصد کی تکمیل ہو نا صرف شخصی عقیدہ کی بات نہیں ہےبلکہ یہ ایک معلوم تاریخی واقعہ ہے۔ اسی لیے انگریز مورخ ٹامس کارلائل نے آپ کو پیغمبروں کا ہیرو بتایا ہے۔ امر یکی پروفیسر مائیکل ہارٹ نے آپ کو تاریخ کا سب سے بڑا انسان کہا ہے۔ کروروں اہل اسلام آپ کو تمام پیغمبروں میں سب سے اعظم اور افضل پیغمبر مانتے ہیں ۔
خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے ، سب توحید کا پیغام لے کر آئے ۔ مگر آپ سے پہلے تمام پیغمبروں کے زمانے میں توحید کا پیغام صرف دعوتی مرحلے میں رہا۔ وہ انقلاب کے مرحلے تک نہیں پہونچا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی مدد سے اس کو عملی انقلاب کے مرحلے تک پہونچا دیا۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے خدا کے دین میں تحریفات ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ حضرت نوح سےلےکر حضرت مسیح تک کسی پیغمبر کا دین بھی تحریف سے خالی نہ رہا۔ آپ کے ذریعہ تاریخ نبوت میں پہلی بارا یسا ہوا کہ خدا کا دین تحریفات سے پاک ہو کر ہمیشہ کے لیے ایک محفوظ دین کی صورت میں قائم ہو گیا۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مذہب نزاعی دور میں تھا۔ مذہب کے ساتھ وہ حقائق جمع نہیں ہوئے تھے جو اس کو ایک تاریخی مسلمہ بنا دیں ۔ آپ کے ذریعہ یہ عظیم کارنامہ انجام پایا کہ مذہب کی تحریک نزاعی مذہب کے دور سے نکل کر مسلّمہ مذہب کے دور میں داخل ہوگئی ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مذہبی تعلیمات کی پشت پر ایک حقیقی عملی تاریخ موجود نہ تھی ۔ آپ اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ پہلی بار ایسا ہوا کہ مذہب کی اعلیٰ تعلیمات مجرد تعلیمات نہ رہیں بلکہ ان کے پیچھے ہر اعتبار سے ایک مکمل واقعاتی تاریخ موجود ہوگئی ––––– حقیقت یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت میں بولا ہوا ہر لفظ ایک ثابت شدہ واقعہ ہے نہ کہ فرضی نوعیت کا صرف ایک شخصی عقیدہ۔