عبرت ناک حادثہ
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ زندگی کا ایک سیدھا راستہ ہے، اور کچھ ٹیڑھے راستے بھی ہیں۔ سیدھے راستہ پر چلنے والا بحفاظت اللہ تک پہونچتا ہے، اور جو لوگ ٹیڑھے راستوں پر چلیں وہ آخر کار بر باد ہو کر رہ جاتے ہیں (النحل ۹) دنیا میں بار بار ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو اس معاملہ کو تمثیل کے روپ میں بتاتے ہیں۔ جو آدمی کو اس سنگین حقیقت کی یاد دلاتے ہیں۔یہاں ایسا ہی ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔
انڈیا ٹوڈے (۱۵ اکتوبر ۱۹۸۹) میں ایک ہوائی حادثہ کی با تصویر تفصیلات چھپی ہیں ۔ یہ اس کورٹ آف انکوائری کی رپورٹ پر مبنی ہیں جو اس سلسلے میں جسٹس اے کے ما تھر کی سربراہی میں حکومت کی طرف سے مقرر کی گئی تھی۔
۱۹ اکتوبر ۱۹۸۸ کو انڈین ایر لائنز کا ایک جہاز (فلائٹ ۱۱۳) بمبئی سے احمد آباد کے لیے اڑا۔ روانگی سے ۳۰ منٹ پہلے فلائٹ ڈسپیچ آفیسر اے کے بنرجی نے جہاز کے پائلٹ کو ایک ٹائپ کی ہوئی شیٹ دی۔ پائلٹ کا نام مسٹر دلایا تھا۔ یہ معمول کی شیٹ تھی جس کو ایر پورٹ کی اصطلاح میں نوٹم (Notam) کہا جاتا ہے۔ یعنی ہوائی عملہ کے لیے ضروری اطلاع(Notice to airmen) اس شیٹ میں درج تھا کہ احمدآباد ایر پورٹ کی رہنما روشنیاں اور لینڈنگ کے مددگار آلات ناکاره (Non-functional) حالت میں ہیں۔ مگر آخری لمحات میں پائلٹ اور کو پائلٹ کے درمیان گفتگو کا جو ریکارڈ "بلیک باکس"کے ذریعہ ملا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پائلٹ نے مذکورہ معلوماتی شیٹ کو نہیں پڑھا۔ انھوں نے اس کو پڑھے بغیر ایک خانےمیں ڈال دیا اور اپنا سفر شروع کر دیا۔
وہ بے خبری کے ساتھ ہوائی جہاز کو اڑاتے ہوئے احمد آباد کے قریب پہونچے۔ پھر وہ اترتے ہوئے ایک ہزار فٹ کی بلندی تک آگئے۔ ان پر لازم تھا کہ وہ ان ضروری احتیاطوں کو ملحوظ رکھیں جو آلات کی مدد کے بغیر آنکھ سے دیکھ کر اترنے کی صورت میں اختیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بجائےانھوں نے ایر پورٹ کے آلات کی رہنمائی پر بھروسہ کیا جو اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے انھیں غلط اطلاعات دے رہا تھا ۔
جہاز جب ایر پورٹ سے تقریباً دو کیلومیٹر کے فاصلہ پر تھا تو وہ اپنے صحیح راستے سے ہٹ گیا۔ فضا میں کہر ہونے کی وجہ سے ایر پورٹ بھی زیادہ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جہاز رن وے پر اترنے کے بجائے باہر نا ہموار زمین پر اتر گیا۔ ایک سکنڈ کے اندر جہاز کے اندر آگ لگ گئی۔ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ یہ واقعہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۸ کو صبح ۷ بجے پیش آیا ۔ ۱۳۸ مسافر ہلاک ہو گئے ۔ صرف دو آدمی شدید زخمی حالت میں بچ سکے۔ بالمقابل صفحہ پر اس کا نقشہ دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ ایک دنیوی مثال ہے جس سے آخرت کے معاملہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس دنیا کا ہر آدمی گویا ایک مسافر ہے۔ ہر آدمی آخرت کی طرف سفر کر رہا ہے ۔ مگر ہر سفر یکساں نہیں۔ ایک سفر وہ ہے جو خدا کے مقرر کیے ہوئے سیدھے راستہ پر جاری ہو۔ دوسرا سفر وہ ہے جس میں آدمی خود اپنی رائے کے تحت ٹیڑھے راستہ پر دوڑنے لگے۔
دونوں سفروں کا انجام یکساں نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ سیدھے راستہ پر اپنا سفر طے کریں گے۔ وہ آخرت میں صحیح منزل پر اتریں گے ۔ ان کے لیے وہاں امن اور راحت کی زندگی ہوگی۔ اس کے بر عکس جو لوگ ٹیڑھے راستہ پر سفر کریں گے ، ان کی سواری جب آخرت کے عالم میں پہونچے گی تو وہ بربادی کے مقام پر گر پڑے گی اور ٹوٹ پھوٹ کر تباہ ہو جائے گی۔