قرآن کی طاقت
ڈاکٹر ذاکر حسین (۱۹۶۹ - ۱۸۹۷) جامعہ ملّیہ اسلامیہ (دہلی) کے معماروں میں سے تھے ۔ آخرعمر میں وہ ہندستان کے صدر جمہوریہ بنائے گئے اور اسی عہدے پر رہتے ہوئے انتقال کیا۔ انھوں نے ریڈیو پر بہت سی تقریریں کی تھیں۔ ایک تقریر میں انھوں نے اپنے ایک ابتدائی استاد کا ذکران الفاظ میں کیا :
"خدا بخشے علی گڑھ کے مشہور استاد مولوی عباس حسین صاحب کو ۔ فرمایا کرتے تھے کہ بھائی ،قرات ِقرآن کا فن ختم ہو گیا۔ میرے اپنے استاد مرحوم (جن سے میں نے قرآت سیکھی ) وہ اس کے آخری جاننے والوں میں تھے ۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر "ق " کا صحیح تلفظ مٹکے کے اندر کر دوں تو مٹکا پھٹ جائے "۔ (بچوں کی تربیت ، نیا کتاب گھر لاہور ، صفحہ ۹۵)
کیسی عجیب بات ہے کہ وہ قرآن جس کے اندر پہاڑوں کو ہلا دینے کی طاقت تھی (الحشر ۲۱)جس کو سُن کر کتنے لوگوں کے سینے شق ہو گئے (مثلاً عمر فاروق ) وہ بالآخر ایک ایسے فن تک جا پہونچا جو بس مٹی کا ایک "مٹکا" توڑ سکتا تھا۔ اور اب یہ حال ہے کہ وہ کاغذ کے صفحات میں چھپا ہوا پڑاہے ، اور اس کے اندر کسی بھی چیز کو توڑنے کی صلاحیت نہیں ۔ حتی کہ اغیار یہ کہنے لگے ہیں کہ قرآن اب ایک ختم شدہ طاقت (Spent force) ہے ، اب وہ کوئی کارنامہ انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا ، اور نہ اس کے ذریعہ سے دنیا میں کوئی انقلاب بر پا ہو سکتا ہے ۔
یہ حالت اس لیے نہیں ہے کہ خدا نخواستہ قرآن میں کوئی کمی واقع ہو گئی ہے ۔ قرآن میں آج بھی تسخیری قوت ہے۔ آج بھی وہ انہیں طاقتوں کا خزانہ اپنے اندر لیے ہوئے ہے جس کا اظہار اس کے نزول کے ابتدائی زمانےمیں ہوا تھا۔ البتہ قرآن کے حاملین اس محفوظ خزانے کو حاصل کر کے اس کو باہردنیا میں لانے کے قابل نہ رہے ۔
قرآن کی لفظی قرآت اگر مٹکا توڑ سکتی ہے تو اس کا معنوی اظہار دلوں اور دماغوں میں زلزلہ پیدا کر سکتا ہے ۔ مگر اصل کمی یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں قرآن کے معنوی اظہار کے لیے کوئی حقیقی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ موجودہ زمانے میں قرآن کا یہ پہلو ابھی تک غیر اظہار شدہ پڑا ہوا ہے ۔