ہنربچشم عداوت بزرگ تر عیب است
مولانامحمد منظور نعمانی صاحب کا ایک تردیدی مضمون الفرقان (ستمبر ۱۹۸۹) میں شائع ہوا ہے۔ ایک بزرگ عالم نے ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب میں شاہ محمد اسمٰعیل شہید دہلوی اور ان کی کتاب تقویۃ الایمان پر تنقید کی گئی تھی ۔ مذکورہ کتاب کا ایک بیان یہ ہے کہ "خاندان شاہ ولی اللہ کے حالات پڑھنے اور سمجھنے سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ مولانا اسماعیل نے واعظی کا پیشہ اپنا لیا تھا"۔ صفحہ ۵۳
اس بیان کے ثبوت اور شہادت کے طور پر مصنّف کتاب نے "ارواح ثلاثہ" کے حوالہ سے امیر شاہ خان صاحب کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ" حج سے واپسی کے بعد چھ مہینہ دہلی میں قیام رہا۔اس زمانےمیں مولانا اسماعیل گلی کوچوں میں وعظ فرماتے تھے "۔
مگر یہ بالکل لغو اور بے دلیل بات ہے ۔ مولانا اسماعیل شہید کے یہ مواعظ بطور "پیشہ "نہیں تھے بلکہ بطور "اصلاح "تھے ۔ مسلمانوں کے اندر پھیلی ہوئی بدعات اور مشرکانہ اعمال کا انھیں بے پناہ درد تھا۔ وہ ان کو خالص توحید کی راہ پر لانا چاہتے تھے۔ اس تڑپ کے تحت وہ رات دن وعظ و نصیحت میں مشغول رہتے تھے ۔ حتی کہ مولانا محمدقاسم نانوتوی کی روایت کے مطابق، وہ ایک ایک دن میں بیس بیس جگہ وعظ کہتے تھے۔ یہ اصلاحی درد کی بنا پر تھا نہ کہ پیشہ ورانہ و عظ خوانی کی بنا پر ۔
مولانا محمد منظور نعمانی صاحب نے اپنے تردیدی مضمون میں اس سلسلےکی بہت سی معلومات نقل کی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ مولانا اسماعیل شہید کی سرگرمیاں اصلاحی درد کی بنا پر تھیں نہ کہ پیشہ ورانہ و عظ خوانی کی بنا پر ۔ اس مضمون کے آخر میں مولانا نعمانی نے فارسی کا یہ مصرعہ نقل کیاہے کہ عداوت کی آنکھ سے دیکھنے میں ہنر بھی بہت بڑا عیب بن جاتا ہے:
ہنر بچشم عداوت بزرگ تر عیب است
رائے قائم کرنے کے سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ کسی بات کوآدمی کس نظر سے دیکھتا ہے۔ سیدھی نظر سے دیکھنے میں ایک چیزعین درست معلوم ہو گی۔ مگر اسی کو ٹیڑھی نظر سے دیکھئے تو وہ سراسر غلط معلوم ہونے لگے گی۔ حتی کہ یہ بھی ممکن ہے کہ جو چیز سب سےبڑا ہنر ہے وہ سب سے بڑا عیب بن جائے۔