روشن مستقبل

الرسالہ مارچ ۱۹۸۹ کے سرورق پر لکھا گیا تھا  ––––––  ہر قسم کے فساد کے خلاف سب سے بڑا روک صرف ایک ہے : اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہونا۔

 اس میں شک نہیں کہ یہی فسادات کو روکنے کا واحد کارگر اصول ہے ۔ اس کے سوا جو باتیں کہی جاتی ہیں وہ سب کی سب صرف جھگڑے کو بڑھانے والی ہیں نہ کہ اس کو ختم کرنے والی۔ مزید یہ کہ اس اصول کا تعلق صرف ہندستان سے نہیں، بلکہ تمام دنیا سے ہے۔ خواہ مسلم ملک ہو یا غیرمسلم ملک ، ایک قوم کا معاملہ ہو یا کئی قوموں کا معاملہ، ہر جگہ فساد سے بچنے اور پر امن زندگی گزارنے کا یہی بے خطا اصول ہے۔ مسلمانوں کو جہاں کہیں بھی پرامن زندگی حاصل ہے ، وہ اسی لیے حاصل ہے کہ وہاں انھوں نے یہ قیمت ادا کر دی ہے ۔ اور جہاں کہیں انہیں پر امن زندگی حاصل نہیں ، وہ اسی لیے حاصل نہیں کہ وہاں وہ یہ ضروری قیمت دینے کے لیے تیار نہ ہو سکے۔

مسلمانوں کے لیڈر اور دانشور اب تک جس روش پر قائم رہے ہیں ، اس کو ، ایک لفظ میں ، دل کی بھڑاس نکالنا کہا جا سکتا ہے۔ مگر الفاظ بول کر دل کی بھڑاس نکالنا کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ ضرورت ہے کہ اب اس معاملہ میں اپنی کوششوں کو نتیجہ رخی (Result-oriented) بنایا جائے ۔ مسئلہ کا حل تلاش کرنے پر ساری توجہ صرف کی جائے نہ کہ مسئلہ کے خلاف لفظی احتجاج کرنے پر ۔

ہندستان کے فسادات

ہندستان میں پچھلی آدھی صدی سے فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے ہیں۔ ان فسادات کی کہانی ہمیشہ تقریباً  ایک ہوتی ہے۔ انتہا پسند ہندؤوں کی طرف سے کوئی اشتعال انگیز کارروائی کی جاتی ہے۔ اس پر مسلمان مشتعل ہو کر جوابی کارروائی کرتے ہیں۔ اب نزاع بڑھتی ہے ، یہاں تک کہ با قاعدہ فساد ہو جاتا ہے جوبالآخر مسلمانوں کے سخت جانی و مالی نقصان پر ختم ہوتا ہے۔

ایسے موقع پر مسلم رہنما اور دانشور ہمیشہ مسلمانوں کے ردِّ عمل کو یہ کہہ کہ جائز قرار دیتے ہیں کہ وہ جوابی طور پر پیش آیا ۔ اس سلسلے میں کوٹہ (راجستھان) کے فساد کی مثال لیجئے ۔ ایک مسلم انگریزی ہفت روزہ  (۱۴-۸ اکتوبر ۱۹۸۹) کی اپنی رپورٹ کے مطابق ، ۴ استمبر ۱۹۸۹ کو کوٹہ میں ہندوؤں نے اننت چتردشی کا جلوس نکالا۔ یہ جلوس مسلم علاقے سے گزرا۔ وہاں اس نے اشتعال انگیز نعرے لگائے جو مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے تھے۔ مسلمانوں نے جلوس والوں کو ایسے نعرے لگانے سے روکا۔ مگر وہ نہیں رکے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے بھی جوابی طور پر نعرے بلند کیے ۔ اس کے بعد )ہندوؤں کی طرف سے( مسلمانوں پر پتھر پھینکے گئے۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے بھی ان پر پتھر پھینکے۔ اس کے بعد فساد بھڑک اٹھا۔ ، امسلمان مارے گئے۔بہت سے زخمی ہوئے ۔ ان کی بہت سی دکانیں اور مکانات جلا دیے گئے ۔

) صفحہ ۱۳(نیز دعوت ۱۳ اکتوبر۱۹۸۹(

اسی طرح بدایوں (یوپی) میں ۲۸ ستمبر ۱۹۸۹ کو فرقہ وارانہ فساد ہوا جس میں مسلمانوں کا زبردست جانی و مالی نقصان ہوا۔ اس کا مختصر قصہ یہ ہے کہ اتر پردیش کی کانگرسی حکومت نے اردو کو ریاست کی سکنڈ لینگویج قرار دینے کا بل پاس کیا۔ اس پر بدایوں کے شری کرشن انٹر کالج کے ہند و طلبہ نے اردو کی مخالفت میں ایک جلوس نکالا ۔ اس جلوس میں مشتعل کرنے والے نعرے لگائے گئے ۔ یہ جلوس کلکٹریٹ تک جا کر ختم ہو گیا  اور اس دن کوئی فساد پیش نہیں آیا ۔

اگلے دن (۲۸) ستمبر) کو بدایوں کے اسلامیہ انٹر کالج کے مسلم طلبہ نے تقریبا تین سو کی تعداد میں جمع ہو کر جوابی جلوس نکالا۔ یہ جلوس نعرہ لگاتا ہوا شری کرشن انٹر کالج کے سامنے سے گزرا۔ وہاں مسلم طلبہ پر پتھراؤ ہوا۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے بھی ویسا ہی کیا۔ اس کے بعد فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا (قومی آواز ۹ اکتوبر۱۹۸۹(

یہی اکثر فسادات کی کہانی ہے۔ مسلم ترجمانوں کے خود اپنے بیان کے مطابق ، ہندوؤں کی طرف سے جلوس، لاوڈ اسپیکر ، ہولی کے رنگ ، نعرہ بازی یا اور کسی صورت میں اشتعال انگیزی کا واقعہ پیش آتا ہے۔ اس پر مسلمان مشتعل ہو کر ان سے   ٹکراجاتے ہیں ۔ اب لڑائی بڑھتی ہے اور باقاعدہ فساد کی صورت اختیار کر لیتی ہے جو" نزلہ بر عضو ضعیف“ کے اصول پر ہمیشہ مسلمانوں کے جانی و مالی نقصان پر ختم ہوتی ہے ۔

منفی ردِّ عمل

مسلمانوں کا یہ طریقہ منفی رد ِّعمل کا طریقہ ہے ۔ اور ایسا طریقہ یقینی طور پر قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ ایسے مواقع پر قرآن نے اعراض کا حکم دیا ہے نہ کہ جوابی طور پر الجھنے کا۔ یہ صحیح ہے کہ مذکورہ قسم کی جوابی کارروائی میں مسلمانوں کا ایک محدود طبقہ ہی ملوث ہوتا ہے ۔ مگر دوسرے مسلمان ، خاص طور پر مسلمانوں کا رہنما اور دانشور طبقہ، بھی پوری طرح اس میں شریک ہے، کیونکہ وہ ان کی مذمت نہیں کرتا ، بلکہ ان کی جوابی کارروائی کو جائز قرار دے کر ان کا لفظی دفاع کرتا ہے۔ کچھ مسلمان اگر اس منفی ردِّ عمل میں براہ راست طور پر شریک ہیں تو بقیہ مسلمان  اس میں بالواسطہ طور پر شریک قرار پاتے ہیں۔

مسلمان پچھلے پچاس برس سے اسی جوابی روش پر قائم ہیں اور وہ اس کو جہاد سمجھتے ہیں۔ مگر اصل مسئلہ کا حل نہ ہونا بلکہ اس کا بڑھتے رہنا ثابت کرتا ہے کہ وہ خدا کی منشا کے خلاف ہے۔ اگر ان کا عمل خدا کی منشا کے مطابق ہوتا تو خدا کی مدد آتی اور مسئلہ کو حل کر دیتی۔ مگر جان و مال کی بے پناہ ہلاکت کے باوجود اب تک اس معاملہ میں خدا کی مدد نہیں آئی ۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مسلمانوں کا یہ عمل خدا کے نقشہ کے مطابق نہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ اب آخری وقت آگیا ہے کہ مسلمان اور ان کے رہنما اپنی اس روش کو مکمل طور پر بدل ڈالیں۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ صورت حال اور خراب ہو جائے ۔ اب تک وہ انسانوں کی پکڑ میں تھے ، آئندہ وہ  خدائے ذو الجلال کی پکڑ میں آجائیں۔

قرآن و حدیث کی رہنمائی

مسلمانوں  کا  یہ  طریقہ  ردِّعمل کا طریقہ ہے ، اور اس قسم کے رد ِّعمل سے قرآن و حدیث میں صراحتہ ًمنع کیا گیا ہے ۔

قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں۔ تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو ۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی ، وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اور یہ بات انھیں کو ملتی ہے جو صبر کر نے والے ہیں ، اور یہ بات اسی کو ملتی ۔ ہے جو بڑا نصیبہ والا ہے(حٰم السجده ۳۴ – ۳۶)

حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ وَلَكِنْ يَمْحُو السَّيِّئَ بِالْحَسَنِ ‌إِنَّ ‌الْخَبِيثَ لَا يَمْحُو الْخَبِيثَ(مشكاة المصابيح،2771)

برائی کو برائی کے ذریعہ نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو   بھلائی کے ذریعہ مٹاتا ہے ۔ بری چیز کبھی بری  چیز کو نہیں مٹاتی۔

حضرت عبداللہ بن عباس نے مذکورہ قرآنی آیت کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے :

أَمَرَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ بِالصَّبْرِ عِنْدَ الْغَضَبِ، وَالْحِلْمِ عِنْدَ الْجَهْلِ، وَالْعَفْوِ عِنْدَ الْإِسَاءَةِ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ ‌عَصَمَهُمُ ‌اللَّهُ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَخَضَعَ لَهُمْ عَدُوُّهُمْ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ(تفسیر ابن کثیر، الجزء الرابع ، صفحہ ۱۰۱)

اللہ نے اہل ایمان کو حکم دیاکے وقت ہے غصہ کے وقت   صبر کا، جہالت  کے  وقت  برداشت کا ، اور برائی کے وقت معافی  کا۔ جب وہ ایسا کریں تو اللہ انہیں شیطان سے محفوظ  کر دے گا اور ان کے دشمن کو ان کے لیے جھکا دے گا۔ گویا  کہ وہ ان کا قریبی دوست ہو ۔

 مذکورہ آیت اور حدیث اور صحابی کی تشریح کو سامنے رکھ کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ہندستان کے موجودہ حالات میں مسلمان جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ سراسر شریعت اسلامی کے خلاف ہے۔ مسلمان ردِّعمل کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، حالانکہ صحیح یہ ہے کہ وہ صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کریں۔

مسلمان اپنے نام نہاد رہنماؤں کے بتائے ہوئے حل پر پچاس برس تک کم از کم پچاس ہزار بار عمل کر چکے اور ہمیشہ ناکام رہے۔ اب انھیں خد ااور سول کے بتائے ہوئے طریقہ کا تجربہ کر نا چاہیے۔ وہ یہ کہ مسلمان برائی کے بدلہ میں بھلائی کی روش اختیار کریں۔ وہ شور کا جواب خاموشی سے دیں اور نفرت کے مقابلہ میں محبت کا مظاہرہ کریں۔

خدا نے اپنی دنیا کا جو نظام بنایا ہے اس میں برائی کا خاتمہ جوابی برائی سے نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا خاتمہ اس طرح ہوتا ہے کہ برائی کے جواب میں بھلائی کی جائے۔ خدا کی دنیا میں صبر کی طاقت غصہ سے زیادہ ہے۔ یہاں جہالت کے مقابلہ میں برداشت زیادہ وزن رکھتی ہے۔ یہاں انتقام کے بجائے معاف کر دینا اپنے اند تسخیری طاقت رکھتا ہے۔ یہاں دشمن کو زیر کرنے کا سب سے زیادہ کار گر طریقہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ دوستی اور خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے۔

نرمی اور تحمل کے طریقہ کی اہمیت حدیث میں مختلف طریقوں سے نہایت وضاحت کے ساتھ بتائی گئی ہے۔اس سلسلہ کی ایک حدیث یہاں نقل کی جاتی ہے :

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ :إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى رَفِيقٌ ‌يُحِبُّ ‌الرِّفْقَ وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ وَمَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ، إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْء إِلَّا شانه۔۔۔ مِنْ يُحْرَمِ الرِّفْقَ يُحْرَمِ الْخَيْرَ(مشكاة المصابيح، 5068)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نرم و مہربان ہے اور نرمی و مہربانی کو پسند کرتا ہے۔اللہ نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو  وہ سختی پر نہیں دیتا اورنہ کسی اور چیز پر دیتا۔ نرمی جس چیز میں بھی ہو وہ اس کو زینت دے گی ۔ اور وہ جس چیز سے بھی اٹھ جائے وہ اس کو عیب دار بنا دے گی۔ جو شخص نرمی سے خالی ہو وہ ہر بھلائی سے خالی ہوجائے گا۔

 صبر و اعراض ایک اعلیٰ ترین حفاظتی تدبیر ہے۔ اس تدبیر کے ذریعہ آپ فساد کے ہربم کو یقیناً ناکارہ(De-fuse) کر سکتے ہیں۔ یہ حل ہم خرما و ہم ثواب کا مصداق ہے۔ اس کو اختیار کر کے مسلمان اپنا مسئلہ بھی حل کریں گے ، اور اسی کے ساتھ انھیں عبادت کا ثواب بھی حاصل ہوگا، کیونکہ یہ حل خود خدا اور رسول کی طرف سے ہمیں بتایا گیا ہے ۔

مثبت طرز عمل کی مثال

اوپر کوٹہ اور بدایوں کی مثال نقل کی گئی ہے جب کہ مسلمانوں نے منفی ردِّ عمل کا طریقہ اختیار کیا اوراس کا برا انجام ان کے سامنے آیا۔ اب اس کے برعکس دو مثالیں لیجئے جب کہ مسلمانوں نے جوابی کارروائی سےپر ہیز کرتے ہوئے مثبت روش اختیار کی۔ اس کے نتیجہ میں ان کے جان و مال بر بادی سے محفوظ رہے ۔

 فروری ۱۹۸۹ میں شیو گنج (راجستھان) میں ہیڈ گواڑ جنم شتابدی کے موقع پر ہندوؤں نے جلوس نکالا۔ جلوس مقامی جامع مسجد کے سامنے پہنچ کر اشتعال انگیز نعرے لگانے لگا۔ مگر وہاں کوئی مسلمان ان کا جواب دینے یا روک ٹوک کرنے کے لیے سامنے نہیں آیا۔ اس کے برعکس یہ ہوا کہ مسجد کے امام مولانا خدابخش بلوچ باہر نکلے ۔ انھوں نے جوابی اشتعال کا مظاہرہ کرنے کے بجائے سادہ طور پر یہ کیا کہ جلوس کے افراد سے دوستانہ ملاقات شروع کر دی ۔ ان کے "آداب عرض" کو دیکھ کر جلوس کے نوجوان بھی "مولوی جی نمستے ، مولوی جی نمستے " کے الفاظ بولنے لگے۔ اس کے بعد جلوس کا سارا زور اپنے آپ ختم ہوگیا۔ پانچ منٹ میں لوگ ٹھنڈے ہو کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

دوسری مثال دہلی کی ہے۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۸۹ کو وشو ہندو پریشد کی طرف سے دہلی میں "وراٹ ہندو سمیلن  "منایا گیا۔ بوٹ کلب پر بڑی تعداد میں ہند و جمع ہوئے۔ وہاں اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں اور مخالفانہ نعرے لگائے گئے ۔ ہندؤوں کا یہ ہجوم بوٹ کلب سے واپس ہوا تو وہ مسلم مخالف نعرے لگا رہا تھا۔ مثلاً" ہندو بن کر رہنا ہو گا ، بندے ماترم کہنا ہو گا " وغیرہ ۔ انھوں نے اپنے راستہ میں مسجدوں کی بے حرمتی کی۔ نئی دہلی کی ایک مسجد کا بورڈ توڑ ڈالا۔ وغیرہ

یہ سب کچھ ہوا۔ مگر دہلی کے مسلمان پوری طرح اعراض کی پالیسی پر قائم رہے۔ انھوں نے سنامگر اپنے کان بند کر لیے ۔  انھوں نے دیکھا مگر اپنی نظریں پھیر لیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ ۲۲ ستمبر کو دہلی میں کوئی فساد ہوا اور نہ اس کے بعد ۔ ہندؤوں کے مخالفانہ الفاظ وقتی شور و غل بن کر فضا میں تحلیل ہو گئے۔

 یہ صرف دو مثالیں نہیں ہیں۔ اس طرح کی مثالیں بڑی تعداد میں ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فساد ہونے کے مقابلہ میں فساد نہ ہونے کے واقعات کی تعداد کہیں زیادہ ہے ۔ مگر اول الذکر واقعات اخباروں میں چھپ کر مشہور ہو جاتے ہیں۔ جب کہ ثانی الذکر واقعات اخباروں میں نہیں چھپتے، اس لیے وہ لوگوں کے علم میں بھی نہیں آتے ۔

صحابی کی نصیحت

ہندستان کے فسادات کا بہترین حل وہ ہے جو ایک صحابی نے ۱۴ سو سال پہلے بتا دیا تھا یہ حضرت عمیر بن حبیب بن خُماشہ ہیں۔ انھوں نے اپنے لڑکے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا :

مَنْ لَا يَرْضَى بِالْقَلِيلِ مِمَّا يَأْتِي بِهِ السَّفِيهُ ‌يَرْضَى ‌بِالْكَثِيرِ(حياة الصحابۃ ، الجزء الثانی صفحہ ۶۴۷)

جو شخص نادان کی طرف سے پیش آنے والی چھوٹی تکلیف پر راضی نہ ہو گا اس کو نادان کی طرف سےبڑی تکلیف پر راضی ہونا پڑے گا۔

صحابی کے اس قول میں زندگی کی ایک حقیقت بتائی گئی ہے ۔ یہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے دور میں جتنی بامعنی تھی، اتنی ہی بامعنی وہ آج بھی ہے۔ وہ جس طرح مسلم اکثریت کے ملک میں اہمیت رکھتی تھی ، اسی طرح وہ غیر مسلم اکثریت کے ملک میں بھی اہمیت رکھتی ہے۔

موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں بہر حال دوسروں کی طرف سے تکلیف کی باتیں پیش آتی ہیں۔یہاں عقل مندی اور کامیابی یہ ہے کہ ابتدائی چھوٹی تکلیف کو برداشت کر لیا جائے ۔ اگر آپ ایسانہ کریں تو معاملہ بڑھتا ہے اور زیادہ بڑی تکلیف سے سابقہ پیش آتا ہے۔ بڑی تکلیف سے بچنے کا واحد راز چھوٹی تکلیف کو نظر انداز کرنا ہے۔ یہی کامیاب زندگی کا واحد اصول ہے ، خواہ گھر کا معاملہ ہو یا سماج کا معاملہ یا پورے ملک کا معاملہ ۔

اس کی ایک مثال جلوس کا مسئلہ ہے۔ ۹۴۷ اسے پہلے ہندوؤں کا جلوس با جا بجاتا ہوا مسجد کے سامنے سے گزرتا تھا اس وقت مسلمانوں نے باجا کو برداشت نہیں کیا اور جلوس کی روٹ بدلنے پر اصرار کیا۔ اس سے مسئلہ تو ختم نہیں ہوا۔ البتہ بعد کو مزید یہ خرابی پیدا ہوئی کہ ہندوؤں کا جلوس اسی کے ساتھ مسلم مخالف نعرے بھی لگانے لگا۔ اس پر مسلمانوں نے دوبارہ روک ٹوک کی۔ اب یہ ہوا کہ جلوس اور نعرہ توختم نہیں ہوا۔ البتہ اس میں تیسری چیز کا اضافہ ہوا۔ وہ یہ کہ جلوس باجے اور نعرے کے ساتھ ٹرک میں پتھر بھر کر چلنے لگا تا کہ مسجدوں اور مسلم محلوں پر خشت باری کرتا ہوا گزرے۔ مزید یہ کہ پہلے اگر جلوس سال میں چندبار نکلتا تھا تو اب وہ روزانہ اور ہر جگہ نکلنے لگا۔

بڑھتے ہوئے مسائل کی یہ صورت حال صحابی کی نصیحت کی تصدیق کرتی ہے ۔ وہ مسلمانوں کی ردِّ عمل کی سیاست کو بالکل بے فائدہ ثابت کر رہی ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ مسلمان صحابی کی مذکور نصیحت کی اہمیت کو سمجھیں اور ردِّعمل کی روش کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں ۔

دوسری غلطی نہیں

فساد کا حل سادہ لفظ میں صرف ایک ہے –––––  "دوسری غلطی نہ کیجئے" ایک فریق کی طرف سے کی جانے والی پہلی غلطی کبھی فساد تک نہیں پہنچ سکتی، جب تک فریق ثانی دوسری غلطی نہ کر ہے ۔ جس طرح دونوں ہاتھوں کو حرکت میں لائے بغیر تالی نہیں بجتی ، اسی طرح صرف پہلی غلطی فساد بر پا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ مسلمان اگر یہ طے کر لیں کہ وہ فرقہ پرست عناصر کی پہلی غلطی کے باوجود کبھی دوسری غلطی نہ کریں گے تو صرف اس ایک فیصلہ سے وہ فساد کے امکان کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتے ہیں۔

پہلی غلطی کے بعد دوسری غلطی کرنا فساد کو پھیلنے کا موقع دینا ہے ۔ اس کے برعکس جب پہلی غلطی کے بعد دوسری غلطی نہ کی جائے تو فساد اپنے پہلے ہی مرحلہ میں ختم ہو کر رہ جائے گا۔ پہلی غلطی کے بعد دوسری غلطی کرنا گویاآگ پر پٹرول ڈالنا ہے، اور پہلی غلطی کے بعد دوسری غلطی نہ کر ناگو یا آگ پر پانی ڈالنا۔

مسلمان ہر سال بے شمار تعداد میں سیرۃ النبی کے جلسے کرتے ہیں۔ ان جلسوں میں پر فخر طور پر کہاجاتا ہے کہ" سلام اس پر کہ جس نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں "مسلم شعراء جوش و خروش کے ساتھ اس قسم کی نظمیں  پڑھتے ہیں:

راہ میں جس نے کانٹے بچھائے گالی دی پتھر برسائے اس پر چھڑ کی پیار کی شبنم صلی اللہ علیہ وسلم

اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنے پیغمبر کی جس صفت کو بطور فخر پیش کرتے رہے ہیں ، اس کو اپنی زندگیوں میں بطور نمونہ اختیار کر لیں۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے امتی بھی بن جائیں گےاور اس کے ساتھ تعصب اور ظلم اور فساد کا مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ جس طرح وہ رسول اور اصحاب رسول کے لیے اسی طریقہ کو اختیار کرنے کی بنا پر ختم ہو گیا تھا۔

داعیانہ اخلاق

صبر و اعراض کی اہمیت صرف اس لحاظ سے نہیں ہے کہ وہ فرقہ وارانہ فساد کے مسئلہ کا حل ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنی داعیانہ حیثیت کی بنا پر مسلمانوں کو لازماً ایسا ہی کرنا چاہیے۔ مسلمان خدا کی طرف سے خدا کے دین کا داعی ہے۔ ہندو اور دوسری تمام قومیں اس کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور جولوگ مدعو کی حیثیت رکھتے ہوں، ان کے بارے   میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی طرف سے پیش آنے والی ناخوش گواریوں کو یک طرفہ طور پر برداشت کیا جائے۔ تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان تناؤ کی فضا پیدا نہ ہونے پائے۔ کیونکہ تناؤ کی فضا میں کوئی دعوتی کام نہیں کیا جاسکتا ۔

مسلمانوں کی داعیانہ حیثیت ان کے اوپر فرض کے درجہ میں ضروری قرار دیتی ہے کہ وہ برادران وطن سے حریف اور رقیب کا برتاؤ نہ کریں۔ بلکہ وہ ان کے ہمدرد اور خیر خواہ بنیں۔ مسلمانوں کے اوپر لازم ہے کہ وہ برادران وطن کی ایذا رسانی پر آخری حد تک صبر کریں۔ وہ ان کی ایذا رسانی کے باوجود ان کے حق میں دعائیں کریں ۔ وہ دل سے ان کی اصلاح اور نجات کے حریص بن جائیں۔

آخرت میں امت محمدی کو جو سب سے بڑا اعزاز ملنے والا ہے وہ شہداء علی الناس کا اعزازہے۔ مگر یہ اعزاز صرف انھیں لوگوں کو ملے گا جنھوں نے دنیا میں خدا کے دین کی شہادت دی ہو ۔ اور اس شہادت گواہی کی راہ میں ایک طرف صبر و اعراض کی وہ قربانی دی ہو جس کا اوپر ذکر ہوا۔

آخری بات

اب موجودہ حالات میں مسلمانوں کے سامنے دو صورتیں ہیں۔ ایک ، نام نہاد رہنماؤں کا طریقہ جوان کو ردِّ عمل کے راستہ پر چلنے کا سبق دے رہا ہے۔ دوسرا، خدا   و   رسول کا طریقہ جو انہیں پکار رہا ہے کہ ردِّ عمل سے بچو اور صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کرو۔ رہنماؤں کا طریقہ ذلت اور بربادی کی طرف لے جاتا ہے، اور خدا ورسول کا طریقہ عزت اور کامیابی کی طرف ۔ اب مسلمانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ دونوں میں سے کسی طریقہ کو اپنے لیے پسند کر رہے ہیں۔

تازه واقعات امید افزا طور پر بتاتے ہیں کہ مسلمانوں میں نیا شعور جاگا ہے۔ اب تک مسلمانوں میں یہ روایت جاری تھی کہ جب بھی ہندؤوں کا کوئی جلوس مسجد کے سامنے سے گزرے یا ہندؤوں کی ایک جماعت کوئی مخالفانہ نعرہ لگا دے تو مسلمان فوراً اس کو اپنے لیے قومی وقار کا مسئلہ بنا لیتے تھے اور ایسے لوگوں سے لڑنے بھڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں بار بار فرقہ وارانہ فساد پیش آتا تھا۔ اب اس کے برعکس منظر سامنے آرہا ہے ۔ جگہ جگہ مسلمان ایسا کر رہے ہیں کہ وہ ایسے واقعات کو نا قابل لحاظ سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس طرح فساد کا ٹائم بم اپنے آپ نا کارہ ہو کر غیر موثر ہو جاتا ہے۔

 یہ ایک نئے مستقبل کی علامت ہے۔ ان شاء اللہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ صبر و اعراض کی نئی روایت مسلمانوں میں قائم ہو جائے جس طرح ماضی  میں ردِّ عمل کی روایت ان کے درمیان قائم ہوگئی تھی۔ لوگ نا پسندیدہ باتوں کو اسی طرح نظر انداز کرنے لگیں جس طرح اس سے پہلے وہ ان سے الجھ جایا کرتے تھے۔ مستقبل کے افق پر صبح کا اجالا ظا ہر ہو چکا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ایک روشن سورج ان کے اوپر اپنی پوری تابانی کے ساتھ چمکنے لگے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom