ایک سفر
۲۵ سے ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ یک طرابلس (لیبیا) میں ایک انٹرنیشنل سمینار ہوا۔ اس سمینار کا موضوع تھا –––– الدعوة الإسلامية على أبواب قرن جديد
Islamic call in the threshold of a new century.
اس سمینار کے دعوت نامہ پر ایک سفر ہوا۔ وہاں پیش کرنے کے لیے میں نے جو مقالہ تیار کیا ، اس کا عنوان یہ تھا:
Islam in 21st century
یہ مقالہ إن شاء اللہ انگریزی اور اردو الرسالہ میں شائع کر دیا جائے گا۔ یہاں سفر کی روداد درج کی جاتی ہے۔
۲۳ ستمبر ۱۹۸۹ کی شام کو دہلی سے پی آئی اے کی فلائٹ ۲۹۳ کے ذریعہ روانگی ہوئی ۔ جہاز کی سروس انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق تھی۔ کراچی تک ایک گھنٹہ ۴۵ منٹ کی پوری پرواز نہایت ہمواررہی ۔ جہاز کے اندر مطالعہ کے لیے پاکستان کے اردو اور انگریزی اخبار موجود تھے۔
اخبارات کا مطالعہ میرے لیے کچھ زیادہ خوشی کا باعث نہ ہو سکا۔ اخبارات میں لفظی کُشتی کا منظر دکھائی دیا۔ پنجاب کے ریاستی وزیر کی تقریر اسلام آباد کے مرکزی وزیر کے خلاف۔ اور مرکزی وزیر کی تقریر پنجاب کے ریاستی وزیر کے خلاف۔ جماعت اسلامی کے لیڈر کا بیان مہاجر لیڈر کے خلاف اور مہا جر لیڈر کا بیان جماعت اسلامی کے لیڈر کے خلاف اس قسم کی خبریں اخبارات کے صفحہ اول کی زینت بنی ہوئی تھیں۔ اس سے یہ تو اندازہ ہوا کہ موجودہ پاکستان میں جمہوریت ہے مگر اہل پاکستان شعوری اعتبار سے شاید ابھی اس درجہ کو نہیں پہنچے کہ وہ جمہوریت کا تحمل کر سکیں۔
پاکستان ہندو اور مسلم اختلاف سے بچنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مگر جب پاکستان بن گیا تو معلوم ہوا کہ "خدا داد ملک میں " مسلم اور مسلم اختلاف اس سے بھی شدید صورت میں موجود ہے۔
ہوائی جہاز میں میری سیٹ کے قریب ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ وہ ہوا بازی کے انجینیر ہیں اور انھوں نے پائلٹ کی ٹریننگ لی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ بتائیے کہ جہاز کیسے اڑتا ہے۔ انھوں نے اس کی کچھ تشریح کی۔ اس کے بعد کہا کہ جہاز کے اڑنے کا اصول اگر چہ بے حد سادہ ہے مگر اس کو قطعی صورت میں صرف ریاضیاتی زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے، غیر ریاضیاتی زبان میں اس کو قطعیت کے ساتھ بیان کرنا ممکن نہیں۔
یہی اصول دوسرے معاملات کے لیے بھی ہے۔ مثلاً قومی تعمیر یا اسلامی احیاءکےمعاملہ کو بھی صحیح طور پر شعرو خطابت کی زبان میں یا چڑیا چڑے کی کہانی کے طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس کو لاز ماً علمی زبان میں بیان کرنا پڑے گا۔
آجکل یہ حالت ہے کہ ملی تعمیر یا اسلامی احیاء کے کام کو اگر زیادہ گہرائی کے ساتھ بتایا جائے تو بعض لوگ کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو فلسفہ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے ایک معاملہ کو صحیح طور پر " فلسفہ " ہی کی زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ اس کو فلسفہ کی زبان میں سمجھنا نہ چاہیں وہ ہمیشہ کے لیے اس کی حقیقی معرفت سے محروم رہیں گے ۔
جہاز میں ایک رفیقِ سفر نے کہا کہ قرآن میں صرف دو سفروں کا ذکر ہے خشکی کا اور سمندر کاوَحَمَلۡنَٰهُمۡ فِي ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ [الإسراء: 70] مگر موجودہ زمانے میں ہوائی سفر بھی ایک مستقل سفر بن گیا ہے ۔ اس کا مطلب کیا یہ لیا جا سکتا ہے کہ قرآن " دو سفروں " کے دور کی کتاب ہے ، وہ "تین سفروں " کے دور کی کتاب نہیں۔
میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں سفر کی قسمیں تین ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے زیادہ ہیں۔ مثلاً انڈر گراؤنڈ ریلوں کا تحت زمین سفر، یاراکٹ کا بالائے خلاسفر۔ اصل یہ ہے کہ یہ ایک عام اسلوبِ کلام ہے کہ ایک معروف چیز کا ذکر کر کے اس کے ذیل کی دوسری چیزوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے، کیوں کہ وہ اس کے تابع ہونے کی بنا پر خود بخود سمجھ میں آجاتی ہیں ۔ مثلاً آپ کہیں کہ "جمہوری نظام میں حکمراں کو اپوزیشن کی طرف سے بہت سی تلخ باتیں سننی پڑتی ہیں"۔ اس فقرہ میں بظا ہر صرف "سننے "کا ذکر ہے مگر تبعیت کے اصول کے تحت اس میں "پڑھنا " بھی اپنے آپ شامل ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سی تلخ باتیں سننا اور پڑھنا پڑتاہے۔
یہی معاملہ قرآن کی مذکورہ آیت کا ہے۔ اس میں بظاہر اگرچہ صرف بر اور بحر میں سفر کا ذکر ہے ۔ مگر سفر کے ذیل کے دوسرے تابع مفہوم بھی اس میں اپنے آپ شامل ہیں۔ مثلاً بر کی تابعیت میں تحت زمین سفر، اور بحر کی تابعیت میں فوق زمین (ہوائی اور خلائی) سفر۔
اس سے پہلے ایک سفر کے دوران میں نے کر اچی ایر پورٹ کی مسجد میں نماز ادا کی تھی (الرسالہ مئی ۱۹۸۷ ،صفحہ ۲۲) اس سفر میں دوبارہ کچھ وقت اس خوب صورت مسجد میں گزارنے کا اتفاق ہوا ۔ اس مسجد کو دیکھ کر خیال ہوا کہ ایر پورٹ کے اندر مسجد کا ہونا شاید اسی وقت ممکن ہے جب کہ وہ ایر پورٹ کسی مسلم ملک میں واقع ہو ۔ مگر پھر یاد آیا کہ اب زمانہ غیر معمولی طور پر بدل چکا ہے چنانچہ اب اٹلی اور اسپین جیسے ملکوں میں بھی شاندار مسجدیں بن رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے حالات میں ایسی تبدیلی کی ہے کہ اب خود سیکو لر ملک محسوس کر رہے ہیں کہ" مسجد " ان کے سیکولرزم پر دھبہ نہیں۔ بلکہ مسجدان کی سیکو لرزم کی قبا پر ایک تصدیقی تمغہ ہے۔ چنانچہ فرانس میں پاکستان کا واقعہ دہرایا جارہا ہے۔ فرانس کی راجدھانی پیرس میں اور لی ہوائی اڈہ (Orly International Airport) ہے۔ وہ دنیا کے ان ۲۴ بڑے ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے جہاں سالانہ ایک کروڑ سے زیادہ مسافر چڑھتے اور اترتے ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ اس فرانسیسی ہوائی اڈہ پر ایک مسجد بنائی گئی ہے تاکہ یہاں سے گزرنے والے مسلمان مسافروں کو عبادت گزاری کی سہولت حاصل ہو سکے ۔
کراچی ایر پورٹ پر کئی گھنٹے انتظار میں گزرے ۔میں ایک سیٹ پر بیٹھا ہوا کچھ یادداشتیں نوٹ کرنے میں مشغول تھا۔ میرے پاس کی سیٹ پر ایک مسلمان لڑکی آکر بیٹھ گئی ۔ کچھ دیر تک دیکھتے رہنے کے بعد وہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولی ۔" انکل ، آپ شاعر ہیں" ۔ میں نے سر ہلا کر نفی میں جواب دیا۔ میں نے اس سے مزید کچھ نہ کہا اور نہ کچھ پوچھا۔ تاہم میں سوچتا رہا کہ اس نے ایسا سوال کیوں کیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ لوگ لکھنے کے نام سے صرف تفریحی لکھنے کو جانتے ہیں، وہ سمجھ نہیں پاتے کہ کوئی شخص کسی سنجیده مقصد کے لیے بھی قلم کاغذ میں مشغول ہو گا۔
کراچی ایر پورٹ کے اندر داخل ہوتے ہوئے میں امیگریشن کی کھڑکی پر کھڑا تھا۔ میں کئی آدمیوں کےپیچھے تھا۔ پولیس کے آدمی نے مجھے آگے کر دیا ۔ ایک مسافر نے کہا کہ یہ تو پیچھے تھے۔ "یہ بزرگ ہیں" ۔ اس نے جواب دیا ۔ اس نے فوراً میرے پاسپورٹ پر ضروری اندراج کر لیا اور مجھے دیتے ہوئے کہا : ہمارے لیے دعا کیجئے گا"۔ یہ میرے بڑھاپے کی قیمت تھی۔ میں نے سوچا کہ اس دنیا میں اگر" طاقت ور" ہونا اپنے اندر کچھ ایڈوانٹج رکھتا ہے تو یہاں "کمزور" ہونے کے بھی کچھ ایڈ وانٹج ہیں۔ مگر اس کا فائدہ اسی شخص کو ملتا ہے جو فطرت کو اپنا عمل کرنے کا موقع دے اور عاجلانہ مداخلت کر کے فطرت کا نقشہ بگاڑ نہ ڈالے۔
کراچی سے طرابلس کے لیے لیبین ائیرویز کی فلائٹ نمبر ۲۶۳ کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ دوازہ پر پہنچاتو مسافروں کے کاغذات اور سامان کی زبر دست چیکنگ ہورہی تھی۔ میرا حلیہ دیکھ کر جہاز کے عملہ کے ایک عرب رکن نے پوچھا کہ آپ کانفرنس میں جارہے ہیں۔ میں نے کہا ہاں۔ اس کے بعد اس نے کسی قسم کی چیکنگ کیے بغیر اندر داخل کر دیا۔
دل سے دعا نکلی کہ کاش آخرت میں بھی ایسا ہی معاملہ ہو۔ صرف نام پوچھ کر آگے بڑھا دیا جائے۔رحمتوں کے دروازہ میں بلا حساب کتاب داخلہ مل جائے۔ اور بلاشبہ یہ اللہ کے لیے مشکل نہیں۔
کراچی سے طرابلس کا سفر متواتر سات گھنٹہ کا تھا۔ شروع میں خیال آیا کہ یہ بڑا تکلیف دہ سفر ہوگا۔مگر دوران پرواز نیند آتی رہی۔ اس لیے اس کا بڑا حصہ سونے میں گزر گیا۔ صبح کو ہمارے پیچھے کی طرف شفق کا اجالا ظاہر ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد پور ا اجالا ہو جانا چاہیے تھا۔مگر جہاز گھنٹوں تک اسی حالت میں پرواز کرتا رہا۔ جب بھی میں باہر کی طرف دیکھتا تو محسوس ہوتا کہ اجالا بے حد سست رفتار کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا یہ سفر مشرق سے مغرب کی طرف ہو رہا تھا۔ یعنی طلوع آفتاب کے الٹی طرف ۔یہی" سمت سفر" کا معاملہ تھا جس نے اجالا ہونے میں اتنی تاخیر کر دی ۔ زمین کی گردش اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ ہے۔ اگر آپ اپنے مقام پر صبح کے وقت کسی ٹیلہ پر کھڑے ہوں تو سورج آپ کی طرف ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتا رسے آرہا ہوگا۔ چنانچہ بہت جلد اجالا ظاہر ہو جائے گا۔ لیکن ہوائی جہاز کے ذریعہ جب آپ مشرق سے مغرب کی طرف آٹھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتارسے اڑ ر ہے ہوں تو اس وقت آپ کے لیے سورج کے سفر کی رفتار گھٹ کر صرف دو سو میل فی گھنٹہ رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی حالت میں اجالے کے ظہور میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
واپسی کے وقت ۳۰ ستمبر ۱۹۸۹ کو اس کے برعکس صورت پیش آئی۔ یہ سفر مغرب سے مشرق کی طرف تھا۔ صبح کو شفق کی سرخی ظاہر ہوئی۔ اور نہایت تیزی کے ساتھ اجالا ہونے لگا۔ ایسے وقت میں اگر آپ ہوائی جہاز کے ذریعہ آٹھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتارسے مغرب سے مشرق کی طرف اڑ ہے ہوں تو صبح کا اجالا آپ کی طرف ۱۸ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آتا ہوا دکھائی دینے لگے گا۔
وقت کی سمت کے خلاف چلنا بھی سفر ہے، اور وقت کی سمت کی طرف چلنا بھی سفر۔ مگر نتیجہ کے اعتبار سے دونوں میں اتنا فرق ہو جاتا ہے کہ ایک شخص اگر " ۲۰۰ میل "فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہا ہو تو دوسرے کے سفر کی رفتار" ۱۸۰۰ میل" فی گھنٹہ تک پہنچ جائے گی۔
لیبین ایرویز کا مخفف ایل اے (LA) ہے۔ اس سلسلہ میں بعض لیبیوں کے درمیان ایک لطیفہ مشہور ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایل اے کا مطلب ہے Late Always ان کا کہنا ہے کہ لیبین ایر لائنز کے جہاز اکثر کافی لیٹ رہتے ہیں۔ مگر موجودہ سفر میں وہ تقریباً صحیح وقت پر پہنچا۔ اس دنیامیں ہر عموم میں استثناء ہے اور ہر استثناء میں عموم۔
لیبیا کے پاس دولت کی افراط ہے، اس کے باوجو د لیبین ایر لائنز خستہ حالت میں ہے۔ اس کے پاس جہازوں کی بے حد کمی ہے۔ موجودہ جہاز پرانے ہوچکے ہیں۔ فاضل پرز ے نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مرمت سخت مشکل ہو رہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ امریکہ نے لیبیا کو جہازوں کی سپلائی بند کر دی ہے۔ دوسری طرف خلیج کی ہوائی کمپنیاں نہایت اچھی حالت میں ہیں۔ کیونکہ امریکا ان کے اوپر اپنی مشینی عنایتیں جاری کیے ہوئے ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے جو مسائل ہیں ، ان کا سبب اغیار کا ظلم و تعصب نہیں ۔ اس کا اصل سبب مسلمانوں کی یہی پس ماندگی ہے۔ موجودہ مسلمان ہر جگہ پانے کی حد (Receiving end) پر ہیں۔ اور جن لوگوں کا یہ حال ہو جائے ان کا انجام وہی ہوگا جو اس وقت ساری دنیا میں مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔
موجودہ حالت یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ نے ہتھیار دیا تو اس کی مدد سے افغانی مجاہدین نے روسیوں کو ملک سے نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ فلسطین میں امریکہ مدد نہیں کر رہا ہے تو وہاں عرب مجاہدین اور سارا عالم اسلام نصف صدی سے بالکل عاجز ثابت ہو رہا ہے ۔ پاکستان کو امریکہ نے اپنی سرپرستی میں لے رکھا ہے تو وہاں خوش حالی ہے۔ بنگلہ دیش کو امریکہ نے نظر انداز کر دیا تو وہ بد ترین بدحالی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ مسلمان اس وقت ساری دنیا میں "حبل من الناس" کےتحت جی رہے ہیں نہ کہ "حبل من الله "کے تحت (آل عمران ۱۱۲)
۲۴ ستمبر ۱۹۸۹ کو میں طرابلس پہنچا۔ یہاں میرا قیام فندق باب البحر (کمرہ ۹۳۰ )میں تھا۔ ہوٹل میں سب سے پہلی چیز جو پڑھنے کو ملی وہ اخبار الدعوۃ الاسلامیہ (۲۰ستمبر ۱۹۸۹) تھا۔ اس میں پہلے صفحہ پر ایک خبر تھی۔ یہ خبر فائنینشل ٹائمز سے نقل کی گئی تھی۔ لندن کے اس اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ انڈونیشیا میں بڑی تعداد میں غیر مسلم افراد اسلام قبول کر رہے ہیں۔ مسیحی مبلغین کی زبر دست مخالفانہ کوشش کے باوجود وہاں اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ فائنینشل ٹائمز نے لکھا تھاکہ وہاں اس طرح اسلام کی اشاعت کی وجہ یہ ہے کہ اسلام زندگی کی تمام مانگوں کی تکمیل کرتا ہے:
The reason for such increase , is that Islam fulfills all requirements of life.
ہر سچا مذہب ابتداءً انھیں صفات کا حامل تھا جو آج اسلام میں پائی جاتی ہیں ۔ مگر تحریف اور تبدیلی کے نتیجہ میں اب یہ تمام صفات صرف اسلام میں رہ گئی ہیں۔ دوسرے مذاہب کو انسان کی تحریفات نے ان صفات سے محروم کر دیا۔ لوگوں پر اگر یہ بات واضح ہو جائے تو وہ اسلام کی طرف آنے کو تبد یلیٔ مذہب نہ سمجھیں ۔ بلکہ اس کو خود اپنے ہی اصل مذہب کی طرف واپسی کے ہم معنی قرار دیں۔
سفر کے لیے روانگی سے ایک دن پہلے دہلی میں ہفت روزہ الجمعیۃ (۲۲ ستمبر ۱۹۸۹) دیکھا۔ اس کی ایک سرخی یہ تھی : قذافی کے رویہ میں حیرت ناک تبدیلی ۔ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ اب ایک سال سے معمر قذافی اپنی پالیسیوں میں زبر دست تغیر کرتے جارہے ہیں۔ انھوں نے اب امن اور مصالحت اور دوستی کی راہ اپنائی ہے۔ اس قسم کی باتوں کی وجہ سے عرب ملکوں کے ساتھ قذافی کے تعلقات میں سدھار آیا ہے۔ اور لوگوں کی طرف سے عام طور پر مثبت ردِّعمل کا اظہار کیا گیا ہے (صفحہ ۲)۔
یہ "تبدیلی"لیبیا کے سفر میں مختلف اعتبار سے محسوس ہوئی۔ اس کو جوش سے ہوش کی طرف واپسی کہا جاسکتا ہے ۔ پہلی عالمی جنگ تک ترکی عالم عرب کا قائد تھا۔ عثمانی خلافت کے خاتمہ کے بعد کچھ لوگوں نے ناکام طور پر اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی ۔ جمال عبد الناصر کا عالم عرب کا قائد بننے کا خواب نہ صرف بے تعبیرر ہا بلکہ انھوں نے عرب دنیا کی بربادی میں مزید اضافہ کیا۔ اس کے بعد آیات اللہ خمینی اسی خوش فہمی میں مبتلا ہوئے ۔ مگر انھوں نے بھی اپنے پیچھے بربادی کے سوا کوئی تاریخ نہیں چھوڑی۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لیبی لیڈروں کو بھی اپنے بارے میں یہی خوش گمانی ہوگئی تھی جو اب اپنے آپ ختم ہو رہی ہے ۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں صرف دو میں سے کوئی ایک چیز ممکن ہے۔ یا تو تمام مسلم ممالک اپنے اپنے دائرہ میں محدود ہو کر رہیں۔ اور اگر وہ کسی بھی درجہ میں اپنے آپ کو متحدہ بلاک کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں توعملی طور پر اس کی صرف ایک ہی ممکن صورت ہے۔ وہ یہ کہ تمام ملک سعودی عرب کی علامتی قیادت کو تسلیم کر لیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے پاس "مکہ مدینہ "ہے۔ مسلمانوں کے پاس عالمی اتحاد کی یہی ابدی بنیاد ہے۔ مذہبی سطح پر آج بھی یہی چیز ان کو متحدہ حکمت کا شعور دیے ہوئے ہے، اسی طرح یہی وہ چیز ہے جو سیاسی سطح پر ان کے لیے اتحاد کی ممکن بنیاد بن سکتی ہے۔
اٹلی نے ۱۹۱۱ میں طرابلس پر حملہ کیا۔ وہ ۱۹۴۳ تک اس پر قابض رہے۔ اس وقت یہاں ترکوں کی حکومت تھی ۔ ایچ جی ویلز (H.G. Wells) نے اپنی کتاب " آؤٹ لائن آف ہسٹری" میں لکھا ہے کہ اٹلی کے سامراجیوں نے اپنے ہم وطنوں کو ابھارا کہ وہ مزینی کو بھول جائیں اور جولیس سیزرکو یا د رکھیں :
The Italian imperialists exhorted their countrymen to forget Mazzini and remember Julius Caesar (p. 1058).
جی مزینی (Giuseppe Mazzini) ۱۸۰۵ میں پیدا ہوا ، اور ۱۸۷۲ میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ اٹلی کا مشہور قومی ریفارمر تھا۔ وہ لبرل نیشنلزم کا علم بر دار تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ قوموں کےدرمیان ہتھیار کا استعمال بند ہو جانا چاہیے اور ہمشیر گیٔ اقوام (Sisterhood of nations) کے اصول پر باہمی تعلق قائم ہونا چاہیے (14/692)
مگر اٹلی کے پر جوش حکمراں اپنے حال کے لیڈر کو بھول گئے۔ انھوں نے دو ہزار سال پہلے کے حکمراں جولیس سیزر (Julius Caesar) کی سنت پر چلنا چاہا۔ جولیس سیزر ۱۰۰ ق م میں روم میں پیدا ہوا، اور ۴۴ ق م میں اس کو قتل کر دیا گیا۔ اس نے رومی سلطنت کی توسیع کے لیے مختلف ملکوں پرحملے کیے۔ اور بالآخر ایک کمزور روم چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا۔ (3/579)
یہی اکثر قوموں کا حال ہے۔ انہیں اپنے جنگ جو ہیرو زیادہ پسند آتے ہیں۔ اصلاحی اور تعمیری بات کرنے والوں کو وہ اکثر غیراہم سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہیں۔ خواہ جنگ جو افراد نے انھیں بر بادی کےسواکچھ اور نہ دیا ہو۔
ہندستان جیسے ملکوں میں یہ مسئلہ ہے کہ ملک کی معیشت کو چلانے کے لیے پیسہ کہاں سے لایا جائے۔ لیبیا میں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے الفاظ میں، لیبیا کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تیل سے ملنے والی بے پناہ دولت کو کس طرح بہتر طور پر قوم کی ترقی کے لیے خرچ کیا جائے :
The main problem of the oil boom is how best to use the large sums of money available to promote the well-being of the nation as a whole (10/882).
رابطہ عالم اسلامی کے تحت مکہ مکرمہ سے ایک انگریزی پر چہ نکلتا ہے جس کا نام مسلم ورلڈ لیگ جرنل ہے۔ اس کے شمارہ مارچ- اپریل ۱۹۸۹ میں چار صفحہ کا ایک با تصویر مضمون چھپا ہے ۔ اس کا عنوان ہے:
Libya's New Oil Era
اس مضمون میں ایک بڑی سبق آموز بات کہی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے لیبیا پر تجارتی پابندیاں لگائیں اور اس کے تیل کے کارخانوں سے اپنے آدمیوں کو واپس بلالیا۔ بظاہر اس کا مقصد یہ تھا کہ لیبیا کی اقتصادیات تباہ ہو جائیں ۔ مگر نتیجہ برعکس صورت میں برآمد ہوا۔ خود امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لیبیا سے امریکی کمپنیوں کی واپسی کا انھیں کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ بلکہ ان کی آمدنی میں اور اضافہ ہو گیا۔ مشکل آسانی میں تبدیل ہوگئی۔
مسلم ورلڈ لیگ جرنل کے مذکورہ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ امریکی کمپنیوں کی واپسی سے لیبیا کو مختلف فائدے پہنچے ۔ اس سے انھیں موقع ملا کہ وہ ضروری ٹکنالوجی کو خود حاصل کریں ، اس سے ان کی حب الوطنی اور محنت میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے لیبیا کی تیل کی صنعت کو مکمل طور پر لیبی بنالیا ۔ اس کے ذریعہ سےلیبیا میں تیل کی صنعت کا ایک نیا دور آگیا (صفحہ ۶۱)
سعودی عرب کے "فیصل انعام "کی طرح لیبیا میں سالانہ "قذافی انعام" ۱۹۸۹ سے شروع کیا گیا ہے۔ لیبی حکومت نے اس مقصد کے لیے دس ملین ڈالر کا فنڈ سوئزرلینڈ کے ایک بینک میں جمع کیا ہے۔ مئی ۱۹۸۹ میں اس کے پہلے انعام کا اعلان کیا گیا۔ یہ انعام ساؤ تھ افریقہ کے نیلسن منڈیلا (Nelson Mandela)کو ان کی آزادی کی کوششوں (Liberation struggles )کے اعتراف میں دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ 250,000 ڈالر کی رقم شامل ہے۔ ٹائم میگزین (۸ مئی ۱۹۸۹) نے اس واقعہ کی خبر دیتے ہوئے معنی خیز طور پر اس کی سرخی ان الفاظ میں قائم کی ہے –––––– اور انعام پانے والا ہے ۔۔۔
And the winner is ... (p. 21)
سعودی عرب کا فیصل انعام کی شخص کی" اسلامی خدمات" کے اعتراف کے طور پر کسی مسلمان کو دیا جاتا ہے۔ اس معاملہ میں لیبیا اگر سعودی عرب کی تقلید کرے تو وہ اس کے لیے زیادہ اچھا ہو گا۔ یہاں میں نے اپنی گھڑی میں مقامی وقت کے مطابق تبدیل نہیں کی تھی۔ جب مجھے وقت معلوم کرنا ہوتا تو میں ایسا کرتا کہ اپنی گھڑی میں ساڑھے تین گھنٹہ کا فرق کر لیتا تھا۔ اس طرح مجھے مقامی وقت کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ ہندستان کے مقابلہ میں لیبیا کا وقت ساڑھے تین گھنٹہ پیچھے ہے۔ وقت کے آگے پیچھے ہونے کا مطلب کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ انسان نے اپنی سہولت کے لیے رات اور دن کی مدت کو ۲۴ گھنٹے میں تقسیم کیا ہے ۔ یہ مان لیا گیا ہے کہ ہر ملک میں دوپہر کا وقت ۱۲ بجے کا وقت ہوگا۔ اب چونکہ زمین کی محوری گردش کی بنا پر "دوپہر "کالمحہ ہر ملک میں الگ الگ وقت پر آتا ہے، ہر ملک کا وقت الگ الگ ہو گیا ہے۔ مثلاً ہندستان میں جس وقت دوپہر ہوگا ، اس وقت لیبیا میں ابھی دوپہر کا وقت آنے میں تقریباً ساڑھے تین گھنٹے باقی ہوں گے۔ ہر ملک دوپہر کے وقت کو ۱۲ بجے کا وقت مان کر اپنی گھڑی کا آغاز کرتا ہے ، اس لیے ہر ملک کا وقت نسبتی طور پر الگ الگ ہو جاتا ہے۔
وقت کا یہ فرق قدرت کا ایک سبق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ "فرق " اس دنیا کی لازمی حقیقت ہے۔ اس دنیا میں ہمیں فرق کے باوجود مل کر رہنا ہے۔ یہاں اختلاف کے باوجود اتحاد قائم کرنا ہے۔
اپنے عام طریقہ کے مطابق ، میں کانفرنس کے بارے میں "رپورٹ " کے انداز میں کچھ نہیں لکھوں گا۔ کانفرنس کے اندر اور کانفرنس کے باہر پیش آنے والی صرف کچھ باتوں کو یہاں نقل کروں گا۔
کویت کے شیخ راشد عبد الله الفرحان نے حقوق الإنسان فی الإسلام پر عربی میں تقریر کی ۔ اس دوران انھوں نے غلامی کا ذکر کیا اور کہا کہ اسلام کے مخالفین اس پر سب سے زیادہ اعتراض کرتے ہیں۔مگر قرآن وحدیث میں کہیں بھی یہ ہدایت نہیں کہ تم لوگوں کو غلام بناؤ۔ اسلام نے غلامی کو شروع نہیں کیا ۔ وہ پہلے سے دنیا میں موجود تھی۔ اسلام نے ایسے احکام دیے جن کے ذریعہ وہ کمیت وکیفیت کے اعتبار سے ختم ہو سکے۔ غلامی کے بارے میں اسلام نے جو احکام وضع کیے ہیں ، وہ دو مقصد کے تحت تھے۔ مزید غلام بنانے کو روکنا، اور موجودہ غلاموں کو ختم کرنا (النوع الذي شُرعت له الأحكام كلها تدور حول مبدأين مهمّين هما : تضييق المدخل وتوسيع المخرج)
غلامی کے مسئلہ کی یہ تشریح نہایت صحیح اور عین شریعت کے مطابق ہے۔ تضییق المدخل اور توسیع المخرج کا یہی اصول اسلام نے دوسری برائیوں کے استیصال کے لیے بھی اختیار کیا ہے۔
کا نفرنس کی تقریریں اور مقالے زیادہ تر اصل موضوع سے غیر متعلق تھے ۔ اس لیے ان کی کوئی تفصیل یہاں درج نہیں کی جار ہی ہے۔ ایک صاحب نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا : صرف آپ کا مقالہ مقررہ موضوع کے پوری طرح مطابق تھا۔ یہی اکثر کا نفرنسوں کا حال ہوتا ہے ۔
۲۸ ستمبر کی نشست میں فلپائن کی مورو لبریشن فرنٹ کے نوجوان چیئرمین مسٹر نوری مسواری(NUR MISVARI) نے تقریر کی۔ ان کی انگریزی تقریر انتہائی جوشیلے انداز میں تھی۔ انھوں نے بتایا کہ فلپائن کی مسلم آبادی کے علاقے میں آزادی کی جو لڑائی ہو رہی ہے، اس میں اب تک کم از کم ۱۳۵ ہزار مسلمان اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فلپائن کے سابق صدر مار کوس کے ساتھ ہماری میٹنگ ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ لوگوں کو میں ہر چیز دینے کے لیے تیار ہوں ۔ مگر میں آپ کو آزادی دینے کے لیے تیارنہیں :
I am ready to give you anything except independence.
مگر مسلم لیڈروں نے جواب دیا کہ ہماری لڑائی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ہم کو صرف آزادی چاہیے ، اس کے سوا کوئی اور چیز ہم کومنظور نہیں۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی جد و جہد ہر مقام پر اسی صورت ِحال کا شکار ہے۔ مسلمان ہر جگہ بے فائدہ قومی جنگ لڑ رہے ہیں جس کا نام انھوں نے غلط طور پر جہاد فی سبیل اللہ رکھ لیا ہے ۔ وہ دوسرں سے ایسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کو دوسرے لوگ انھیں دینے کے لیے تیار نہیں۔ اور دوسرے لوگ جو کچھ انھیں دے رہے ہیں وہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ۔ اس قسم کی جنگ سراسر بے فائدہ ہے ۔اس کا تعلق عقل سے بھی نہیں ، اسلام سے اس کا تعلق ہونا تو درکنار ۔(باقی)