مہنگی قیمت
قدیم رومی شہنشاہ آکٹیوین (Octavian) جس کو آگسٹس (Caesar Augustus) بھی کہا جاتا ہے ، ۶۳ ق م میں پیدا ہوا ، اور ۱۴ء میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ حکمت کی باتوں کے لیے مشہور ہے۔ اس کا ایک قول انگریزی ترجمہ میں اس طرح نقل کیا گیا ہے :
Whoever seeks to obtain small benefits at the risk of great dangers is like a fisherman using a hook of gold: should it come off, no catch would compensate the loss.
جو شخص بڑے نقصانات کا خطرہ مول لے کر چھوٹے فائدے حاصل کرنا چاہتا ہے ، اس کی مثال اس مچھیرے کی سی ہے جو مچھلی پکڑنے کے لیے سونے کا کانٹا استعمال کر رہا ہو ۔ اگر اس کا کانٹا نکل کر دریا میں گر جائے تو اس کا شکار خواہ کتنا ہی ہو ، اس کے نقصان کی تلافی نہیں بن سکتا۔
حکمت کی یہ بات اب سے تقریباً دو ہزار سال پہلے کہی جا چکی تھی ۔ مگر انسان آج بھی اس کو پوری طرح اختیار نہ کر سکا۔ آج بھی بے شمار افراد اور گروہ ملیں گے جو چھوٹے فائدے کو حاصل کرنے کے لیے بہت بڑے بڑے خطرے میں کو دپڑتے ہیں۔ وہ چند مچھلیاں پکڑنے کی خاطر سونے کا کانٹا کھو دیتے ہیں۔
غلطی کی یہ قسم سب سے زیادہ جن لوگوں میں پائی جاتی ہے وہ قوم کے لیڈر ہیں۔ ایک لیڈر اپنے معمولی مفاد کے لیے قوم کو ایسی بربادی میں ڈال دے گا جس کی تلافی سیکڑوں سال میں بھی نہ ہو سکے۔ وہ اپنی وقتی مقبولیت کے لیے قوم کو مستقل ذلّت کے گڑھے میں دھکیل دے گا۔ وہ اپنے چند سکّوں کی خاطر پوری قوم کی اقتصادیات کو تہہ و بالا کر دے گا ۔ وہ اپنے حق میں سستی شہرت کے حصول کے لیے قوم کے افراد کی زندگی کو اتنی مہنگی کر دے گا کہ وہ اس کے اندر پِس کر رہ جائیں ۔
اگر کسی شخص کی پتنگ سمندر میں گر جائے تو وہ اس کو پکڑنے کے لیے سمندر کی موجوں میں نہیں کو دے گا۔ وہ ایک پتنگ کی خاطر اپنی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالے گا۔ مگر ملی اور قومی معاملات میں ہر لیڈر یہی نادانی کر رہا ہے۔ کیسے عجیب ہیں لیڈر اور کیسے عجیب ہیں ان کی پیروی کرنے والے عوام۔