دے کر پانا
۱۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کے زمانے کا واقعہ ہے۔ ایک عیسائی تاجر اپنے تجارتی گھوڑوں کو لے کر دریائے فرات کے پاس سے اسلامی سرحد میں داخل ہوا۔ زیاد بن حدیر نے اس سے محصول طلب کیا۔ اس نے محصول ادا کر دیا ۔ واپسی میں وہ دو اسی راستہ سے گزرا تو زیاد نے اس کے غیر فروخت شدہ گھوڑو ں سے دوبارہ محصول طلب کیا۔ تاجر کو اس پر اعتراض ہوا۔ اس نے اپنے غیر فروخت شدہ گھوڑے اپنے غلاموں کی نگرانی میں وہیں چھوڑ دیے اور خود چل کر مدینہ پہونچا تاکہ خلیفہ سے شکایت کرے۔ اس نے مدینہ پہونچ کر حضرت عمر فاروق سے اپنا قصہ بیان کیا ۔ اور کہا کہ مجھ سے میرے گھوڑوں پر دوبارہ محصول طلب کیا جارہا ہے ۔ حضرت عمر فاروق نے اس کی بات سُن کر مختصر طور پر صرف اتنا کہا کہ کُفِیتَ (اس کاانتظام کر دیا گیا ہے)
تاجر نے سمجھا کہ خلیفہ نے اس کی شکایت کو کچھ اہمیت نہ دی ۔ وہ مایوسی کی حالت میں دریائےفرات کی چو کی پر واپس آیا اور زیا د کے مطالبے کے مطابق محصول کی رقم ادا کر نے لگا۔ مگر زیاد نے اس سے دوبارہ رقم نہ لی اور کہا کہ خلیفہ کی طرف سے یہ حکم آگیا ہے کہ تم سے دوبارہ محصول نہ لیا جائے ۔
عیسائی تاجر اس بات سے بے حد متاثر ہوا کہ خلیفہ نے اتنی تیز کارروائی کی کہ میرا انصاف مجھ سے پہلے یہاں پہونچ گیا۔ اس نے کہا کہ اے زیاد، میں مسیحیت کو چھوڑتا ہوں ، اور میں اس آدمی کے دین کو اختیار کرتا ہوں جس نے تمہارے پاس یہ فرمان بھیجا ہے (یا زِيَادُ: إِنِّي بَرِيء مِنَ النَّصْرَانِيَّةِ وَإِنِّي عَلَى دِينِ الرَّجُلِ الَّذِي كَتَبَ إِلَيْكَ هَذَا الْكِتَابَ ، كتاب الخراج،ص،١٤٩)
۲۔حضرت علی ابن ابی طالب چوتھے خلیفۂ راشد تھے۔ ایک بار ان کی زرہ چوری ہوگئی ۔حضرت علی کو معلوم ہوا کہ وہ فلاں یہودی کے پاس ہے ۔ انھوں نے کو فہ کے قاضی شریح کی عدالت میں دعویٰ دائر کیا۔ حضرت علی نے اپنے دعوے کے حق میں دو گواہ پیش کیے ۔ ایک اپنے غلام قنبرکو ، اور دوسرے اپنے لڑکے حسن کو ۔ قاضی شریح نے کہا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں مقبول نہیں ہے اور صرف ایک گواہ دعویٰ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔ چنانچہ قاضی شریح نے مقدمہ خارج کر دیا۔ زرہ بدستور یہودی کے پاس باقی رہی۔
یہودی اس فیصلے کو سن کر بے حد متاثر ہوا ۔ اس نے کہا کہ یہ تو نبیوں جیسا معاملہ ہے کہ ایک قاضی وقت کے حاکم کے خلاف فیصلہ کرتا ہے (أنا أشهَدُ أن هذه أحكامُ الأنبياءِ؛ أميرُ المُؤمِنينَ يَجِيءُ إلَى قاضِيه وقاضيه يَقضِي عَلَيه)اس کے بعد یہودی نے اسلام قبول کر لیا اور زرہ یہ کہہ کر حضرت علی کو دے دی کہ یہ آپ ہی کی ہے،آپ کا دعویٰ بالکل درست تھا (کنز العمال، 17789)
۳۔ بنو امیہ کے زمانے میں دمشق کی جامع مسجد بنائی گئی ۔ مسجد کے ایک طرف ایک قدیم گرجا تھا۔ مسلمانوں نے چاہا کہ گرجا کا ایک حصہ مسجد میں شامل کر لیا جائے۔ مگر عیسائی اس کے لیے راضی نہ ہوئے۔ خلیفہ عبد الملک نے اس کے لیے عیسائیوں کو ایک معقول رقم کی پیش کش کی پھر بھی وہ راضی نہ ہوئےچنانچہ ابتدائی تعمیر میں مسجد کا ایک گوشہ ناقص رہا۔
اس کے بعد ولید بن عبد الملک کا زمانہ آیا تو اس نے بھی مسجد کی تکمیل کے لیے عیسائیوں کو راضی کرنا چاہا مگر عیسائی دوبارہ راضی نہیں ہوئے۔ ولید بن عبد الملک نے اس زمین پر زبر دستی قبضہ کرلیا اور اس کو مسجد میں شامل کر کے اس کی تعمیر مکمل کر دی۔ اس کے کئی سال بعد حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفہ ہوئے ۔ ان کے عدل و انصاف کی شہرت پھیلی تو عیسائیوں نے دوبارہ ان سے مل کر اپنی سابقہ شکایت کو پیش کیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس کو سن کر حکم دے دیا کہ گرجا کی زمین کا جوحصہ مسجد میں شامل کیا گیا ہے اس کو توڑ کر عیسائیوں کے حوالہ کر دیا جائے۔
مسلمانوں کو یہ بات بے حد شاق گزری ۔ انھوں نے کہا کہ کیا ہم اپنی مسجد کو گرا دیں، حالاں کہ ہم نے اس میں اذانیں دی ہیں اور نماز یں ادا کی ہیں (نهدم مسجدنا بعد أن أَذنا فيه وصلينا)حضرت عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا کہ خواہ کچھ ہو ، یہ زمین اگر مسیحی عبادت خانےکی تھی تو وہ مسیحیوں کو و اپس کی جائے گی ۔
مسیحیوں نے جب خلیفہ کے اس فیصلے کو سنا تو وہ بے حد متاثر ہوئے ۔ اب ان کا ذہن بدل گیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا دعویٰ ثابت ہو گیا ، ہم کو اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ۔ اب ہم اس زمین کو اپنی طرف سے بطور ہدیہ مسجد کو دیتے ہیں (تا ریخ بلاذری)
اس دنیا میں دینے والا پاتا ہے ۔ اور جو شخص صرف پانا چاہے ، وہ کھوتا ہے ۔ یہ اس دنیا کا اٹل قانون ہے ۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا ۔