زندگی کی تعمیر
اگر آپ جنوری 1989 میں ہوں تو دسمبر 1989 کی منزل تک پہنچنے کے لیے آپ کو بارہ مہینہ تک انتظار کرنا پڑے گا۔ زمین اپنے محور پر 365 بار گھومے گی ، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہو گا کہ آپ کا ایک سال پورا ہو اور آپ تکمیلِ سال کے مرحلہ تک پہنچ سکیں –––––– کتنی زیادہ معلوم ہے یہ حقیقت ۔ مگر کتنے کم لوگ ہیں جو اس معلوم بات کو جانتے ہوں ۔
موجودہ زمانے کے مسلمان بار بار اقدام کرتے ہیں اور بار بار ناکام ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اقدام کے مذکورہ تقاضے پورے نہیں کرتے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو سب سے پہلے جو بات جاننی ہے وہ یہی ہے ۔ انھیں اپنے بارے میں اس حقیقت کو جاننا ہے کہ وہ تاریخ کے آغاز میں ہیں ، وہ تاریخ کے اختتام میں نہیں ہیں۔ جو شخص راستہ کے ابتدائی سرے پر کھڑا ہوا ہو ، وہ درمیانی فاصلے کو طےکیے بغیر راستے کے انتہائی سرے پر نہیں پہنچ سکتا ۔
یہ اس دنیا کا ایک عالم گیر قانون ہے ۔ مگر اس عالم گیر قانون کو مسلمانوں کے رہنما ملت کی تعمیر کےمعاملے میں بالکل بھول جاتے ہیں۔ وہ عملاً پہلے مہینہ میں ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ چھلانگ لگا کرآخری مہینہ میں جا پہنچیں ۔ وہ بنیاد کی تعمیر نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خیالی مکان کی بالائی چھت پر کھڑے ہوئے نظر آئیں۔ واقعے کے اعتبار سے وہ اپنے سفر کے آغاز میں ہوتے ہیں اور ایسے انتہائی الفاظ بولتےہیں گویا کہ وہ درمیانی راستہ طے کیے بغیر اپنی آخری منزل پر پہنچ گئے ہیں ۔
یاد رکھیے ، ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم ایک با مقصد قوم تیار کریں ۔ ہمیں قوم کے افراد کو وہ تعلیم دینا ہے جس سے وہ ماضی اور حال کو پہچانیں ۔ ان کے اندر وہ شعور بیدار کرنا ہے کہ وہ اختلاف کے با وجو د متحد ہونا جانیں۔ ان کے اندر وہ حوصلہ ابھارنا ہے کہ وہ شخصی مفاد اور وقتی جذبات سےاوپر اٹھ کر قربانی دے سکیں ۔
یہ سارے کام جب قابلِ لحاظ حد تک ہوچکے ہوں گے ، اس کے بعد ہی کوئی ایسا اقدام کیا جا سکتا ہے جو فی الواقع ہمارے لیے کوئی نئی تاریخ پیدا کرنے والا ہو ۔ اس سے پہلے اقدام کر ناصرف موت کےگڑھے میں چھلانگ لگانا ہے ، نہ کہ زندگی کے چمنستان میں داخل ہونا ۔