مذہب اور سیاست
مذہب کیا ہے۔ مذہب ان روحانی قدروں اور انسانی اصولوں میں جینے کا نام ہے جن کو خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ بتایا ہے۔ مذہب کا پہلا اصول توحید ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں صرف ایک حقیقت ایسی ہے جو سب سے اوپر ہے ، جو سب سے بالا ہے ، اور وہ خدا ہے۔ یہ عقیدہ آدمی کے اندر تواضع پیدا کرتا ہے ۔ وہ اس سے گھمنڈ کا جذبہ چھین لیتا ہے جو تمام برائیوں کی اصل جڑ ہے۔
مذہب کا دوسرا اصول مساوات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسان ایک ہی خدا کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اور سب کے سب ایک ہی آدم کی اولاد ہیں ۔ مذہب کا یہ اصول انسان اور انسان کے درمیان ہر قسم کی اونچ نیچ کومٹا دیتا ہے۔ خواہ وہ دولت اور عہدہ کی وجہ سے ہو ، یا رنگ اور نسل کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے ۔ اس مذہبی عقیدہ کے مطابق تمام انسان بھائی بھائی ہیں۔ سب کو ایک مشترک خاندان کی طرح مل جل کر رہنا چاہیے۔
مذہب کا تیسرا بنیادی اصول عدل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماجی تعلقات اور آپس کے لین دین میں ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسرے آدمی کے ساتھ برابری اور انصاف کا معاملہ کرے جس طرح تر از و ٹھیک ٹھیک تولتا ہے اسی طرح انسان کو بھی ٹھیک ٹھیک تو لنا چاہیے۔ انسان کا ہر معاملہ اسی طرح درست ہونا چاہیے جس طرح ترازو کی تول بالکل درست ہوتی ہے۔
یہی مذہب کی اصل حقیقت ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہو گا کہ مذہب در حقیقت کچھ قدروں اور کچھ پیمانوں کا نام ہے۔ وہ ایک فرد کو سوچ اور مزاج کے اعتبار سے ، خاص طرح کا انسان بناتا ہے۔ ایسا انسان جو دنیا میں تواضع کی نفسیات کے ساتھ جیے ۔ جو سچائی کے آگے جھک جائے ۔ جو تمام انسانوں کو اپنا سمجھے، جس کو کوئی انسان غیر نظر نہ آئے۔ جو دوسرے انسان کے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ خود اپنے ساتھ چاہتا ہے۔جو اپنے آپ کو بھی اسی پیمانے سے ناپے جس پیمانے سے وہ دوسروں کو نا پنا چاہتا ہے۔
اس طرح مذہب انسان کی زندگی کو جانوروں کی زندگی سے الگ کر دیتا ہے۔ جانور صرف ایک ہی بات کو جانتے ہیں۔ اور وہ ان کا فائدہ ہے۔ وہ اپنے غرض اور فائدےکے سوا کسی اور چیز سے واقف نہیں۔ مگر مذہبی انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ مذہبی انسان کی زندگی کچھ قدروں اور کچھ اصولوں کے تابع ہوتی ہے۔ وہ اپنی خواہش پر نہیں چلتا۔ بلکہ اپنے عقلی فیصلے کے مطابق عمل کرتا ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو حق کے مطابق کرنا چاہیے ۔ اور وہ نہیں کرتا جس کا کرناحق کے مطابق اس کے لیے درست نہیں۔
مذہب کی اس حقیقت کو سامنے رکھنے کے بعد یہ بات اپنے آپ واضح ہو جاتی ہے کہ مذہب کا تعلق سیاست سے کیا ہے۔ وہ چیز جس کو آج کل سیاست کہا جاتا ہے اس سے مذہب کا براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ البتہ بالواسطہ طور پر مذہب کا تعلق سیاست سے اسی طرح ہے جس طرح اس کا تعلق دوسری تمام انسانی سرگرمیوں سے ہے۔
ایک شخص جو صحیح معنوں میں مذہبی ہو اور مذہب کو اس کی روح کے اعتبار سے اپنائے ہوئے ہو تو وہ زندگی کے جس شعبے میں بھی داخل ہو گا اس کا مذہب بھی اس کے ساتھ ساتھ رہے گا۔ اس کا رویہ ہر معاملے میں مذہبی انسان کا رویہ ہو گا ۔ مثلاً وہ سڑک پر چل رہا ہو تو وہ ٹریفک کے اصولوں کی پوری پابندی کرتا ہوا چلے گا۔ وہ کسی سروس میں ہو تو وہ حسبِ قاعدہ اپنی پوری ڈیوٹی انجام دے گا۔ وہ تاجر ہو تو اس کی تجارت لوٹ اور دھوکہ بازی کی تجارت نہیں ہوگی بلکہ دیانت داری کی تجارت ہو گی۔ ایک سچا مذہبی انسان خود اپنے اندرونی جذبے کے تحت مجبور ہوتا ہے کہ وہ جہاں بھی رہے با اصول انسان کی طرح رہے۔ وہ کسی بھی حال میں بے اصولی اور خود غرضی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔
یہی معاملہ سیاست کا بھی ہے۔ ایک مذہبی انسان سیاست میں بھی ، براہ راست یا بالواسطہ طور پر داخل ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں بھی وہ اپنے مذہبی مزاج کے تحت اپنا سیاسی عمل کرے گا نہ کہ مذ ہبی مزاج کو چھوڑ کر ۔ اس کی سیاست دوباره با اصول سیاست ہوگی نہ کہ مصلحت پرستی کی سیاست ۔ وہ سیاسی مواقع کو قوم اور ملک کی خدمت کے لیے استعمال کرے گا نہ کہ قوم اور ملک کو لوٹنے کے لیے۔ وہ اپنی سیاسی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹ نہیں بولے گا۔ بلکہ اپنی غلطیوں کا کھلے طور پر اعتراف کرے گا، خواہ اس اقرارکی قیمت اس کو یہ دینی پڑے کہ وہ سیاسی عہدہ یا سیاسی اقتدار سے محروم ہو جائے ۔
ایک شخص سیاست میں مذہب کا نام لے تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مذہبی آدمی ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ایک خود غرض سیاست داں ہو اور مذہب کا نام صرف اس لیے استعمال کر رہا ہو کہ اس کے ذریعے سے عوام کو دھوکہ دے۔ وہ اپنی خود غرضی کی سیاست چلائے اور ظاہر یہ کرے کہ وہ مذہب کی سیاست چلا رہا ہے۔
مشہور مثل ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح مذہب کے نام پر چلائی جانے والی سیاست کو بھی اس کے نتیجےکے اعتبار سے جانچنا چاہیے ۔ اگر یہ سیاست اخلاق اور انسانیت کی فصل اگا ر ہی ہو تو وہ مذہبی لوگوں کی سیاست ہے۔ اور اگر اس کے نتیجےمیں باہمی ٹکراؤ اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا جھاڑ جھنکاڑ پیدا ہو تو یقینی طور پر وہ استحصالی سیاست ہے۔ اس کامذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
اگر کہا جائے کہ مذہبی تجارت یا مذہبی ڈاکٹری ، تو یہ الفاظ بے معنی معلوم ہوں گے۔ لیکن اگر ہم لفظ بدل دیں اور یوں کہیں کہ مذہبی آدمی کی تجارت یا مذہبی آدمی کی ڈاکٹری ، تو پھر یہ الفاظ بے معنی معلوم نہیں ہوں گے ۔ کیوں کہ مذہبی تجارت یا مذہبی ڈاکٹری کسی چیز کا نام نہیں۔ مگر مذہبی آدمی کی تجارت واقعتاً ایک چیز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو اپنی سوچ اور اپنے ذہن کے اعتبارسے مذہبی ہو۔ ایسا آدمی جب تجارت کرے گا تو اس میں وہ اپنے مذہبی اصولوں کا لحاظ کرے گا۔ مثلاً وہ گاہک کو دھوکا نہیں دے گا۔ وہ لین دین میں خیانت نہیں کرے گا۔ وغیرہ ۔ اس طرح اس کی تجارت مذہبی آدمی کی تجارت بن جائے گی۔
اسی طرح ایک شخص سچامذہبی ہو ، اس کے بعد وہ ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کرے تو وہ اپنےمریضوں کو صرف پیسہ لوٹنے کا ذریعہ نہیں سمجھے گا۔ بلکہ وہ ان کا ہمدرد ہو گا۔ وہ ان کو صحیح دوا دے گا۔ وہ ان کا خیر خواہ بن کر ان کا علاج کرے گا۔ اس طرح کا اعلیٰ سلوک اس کی ڈاکٹری کو ایک مذہبی انسان کی ڈاکٹری بنا دے گا۔
گویا مذہب عملی اعتبار سے مذہبی انسان کا نام ہے۔ اگر واقعتاًکسی سماج میں مذہبی انسان ہیں تو ان کے مذہبی عمل سے سماج میں مذہبی ماحول پیدا ہو گا۔ اور اگر ایسے انسان نہ ہوں جو واقعی معنوں مذہبی ہوں تو ایسا سماج مذہبی سماج نہیں بن سکتا، خواہ وہاں مذہبی نعرہ لگانے والوں کی بھیڑا کھٹا ہو، خواہ وہاں مذہب کے نام پر کتنے ہی ہنگامے جاری ہوں۔
مذہبی تجارت حقیقتاًمذہبی انسان کی تجارت کا دوسرا نام ہے ۔ مذہبی انسان کے بغیر وہ تجارت وجود میں نہیں آسکتی جس کو مذہبی تجارت کہا جاسکے ۔ اسی طرح اگر مذہبی سیاست کوئی چیز ہو تو وہ بھی مذہبی انسان کی سیاست کا دوسرا نام ہوگی ۔ حقیقی مذہبی انسان کے بغیر حقیقی مذہبی سیاست کا کوئی وجود نہیں۔
جو لوگ مذہب کی اس حقیقت کو نہیں جانتے وہ "مذہبی حکومت" بنانے کا نعرہ لگاتے ہیں ، حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ " مذہبی انسان " بنانے کی کوشش کی جائے ۔ " مذہبی حکومت بناؤ " کا نعرہ ایک بے معنی نعرہ ہے جو صرف سماجی جھگڑے اور قومی فساد میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر "مذہبی انسان بناؤ " کا مشن چلایا جائے تو سماج میں جھگڑا گھٹے گا اور فساد ختم ہو گا۔
"مذہبی تجارت" اگر کوئی چیز ہو تو وہ مذہبی انسان کی تجارت کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی انسان کے بغیر مذہبی تجارت کے کوئی معنی نہیں ۔ اسی طرح " مذہبی سیاست" اگر کوئی چیز ہو تو وہ بھی مذہبی انسان کی سیاست کا دوسرا نام ہوگی۔
سچے مذہبی انسان کی روش ہی کسی سیاست کو مذہبی رنگ دیتی ہے۔ اگر سچے مذہبی انسان نہ ہوں تو مذہبی نعرے بازی یا مذہب کے نام پر ہنگامہ آرائی سے کوئی سیاست مذہبی سیاست نہیں بن سکتی، خواہ اس قسم کی کوشش میں ہزاروں سال لگا دیے جائیں۔
مذہب اور سیاست یا سیاست اور مذہب کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ سیاست کو مذہب کے لیے استعمال کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا جائے۔ پہلی صورت مذہب کے مطابق ہے اور انسانیت کے لیے رحمت ہے ۔ جب کہ دوسری صورت سراسر مذہب کے خلاف ہے اور انسانیت کے لیے ایک سماجی عذاب سے کم نہیں۔
مذہب کے بارے میں خاص طور پر مشرقی ملکوں میں لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ اگر مذہب کے نام پر کوئی اشو کھڑا کیا جائے تو وہ فوراً بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس بنا پر خود غرض سیاستداں اپنی لیڈری کو نمایاں کرنے کے لیے اس کو سب سے زیادہ آسان سمجھتے ہیں کہ" مذہب خطرہ میں " جیسا کوئی نعرہ بلند کریں اور لوگوں میں ادھر سے اُدھر تک آگ لگا دیں۔ اس آگ کی روشنی میں لیڈر کا اپنا چہرہ تو خوب روشن ہو جاتا ہے مگر عام انسان اس کی آگ میں جھلس کر رہ جاتے ہیں ۔
صحیح سیاست اور غلط سیاست کو ناپنے کا ایک بہت کھلا ہو ا معیا ر ہے ۔ جو سیاست محبت کی بنیاد پر اٹھائی جائے وہ سچی سیاست ہے۔ اور جو سیاست نفرت کی بنیاد پر اٹھائی جائے وہ جھوٹی سیاست۔
اب چونکہ مذہب تمام انسانوں سے محبت اور خیر خواہی کی تعلیم دیتا ہے اس لیے جب کوئی سچامذہبی انسان سیاست کے میدان میں آئے گا تو وہ انسانوں کی محبت کی بنیاد پر اپنی سیاسی تحریک چلائے گا۔ وہ سیاست میں ان اعلیٰ انسانی قدروں کو شامل کرے گا جو مذہب کا روح اور خلاصہ ہیں۔ مثلاً بے غرضی، اصول پسندی ، انصاف، استحصال سے بچنا ، حقوق سے زیادہ ذمہ داریوں کاخیال ، وغیرہ۔
اس کے برعکس اگر کوئی شخص مذہب کا نام لیتا ہے۔ اور اسی کے ساتھ وہ نفرت اور تشدد کی سیاست چلانا چاہتا ہے تو یقینی طور پر وہ مذہبی نہیں ہے ۔ وہ مذہب کو صرف اپنے خود غرضانہ مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ کیوں کہ مذہب اور نفرت یا مذہب اور تشدد دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔
مذہب اور سیاست کا لفظ ایسا ہی ہے جیسے محبت اور سیاست کا لفظ ۔ محبت سے بھرا ہوا دل، خواہ وہ سیاست کے پلیٹ فارم پر ہو یا اور کسی پلیٹ فارم پر ،کبھی نفرت اور دشمنی کی بات نہیں کر سکتا۔ اسی طرح جس انسان کے اندر مذہب کی روح اتری ہوئی ہو وہ کبھی نفرت اور دشمنی کی بات نہیں کرے گا، خواہ وہ سیاست کے میدان میں ہو یا کسی اور میدان میں۔
***
نوٹ : آل انڈیا ریڈ یونئی دہلی سے 17 اکتوبر 1988 کو نشر کیا گیا۔