مسائل ملّت
فردِ مّلت کے مسائل کا جو حل ہے ، وہی خود مّلت کے مسائل کا حل بھی ہے۔ مّلت کا ایک فرد اپنی ذاتی کوشش سے اپنی زندگی کی تعمیر کرتا ہے ۔ اسی طرح مجموعۂ افراد جس کا نام مّلت ہے ، اس کے مسائل بھی اس کی اپنی کوششوں سے حل ہوں گے ۔ کوئی دوسرا اس کے مسائل کو حل کرنے والا نہیں۔
اس دنیا میں ایک بھائی کبھی دوسرے بھائی کے لیے نہیں کماتا۔ کوئی رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کے لیے لڑائی نہیں لڑتا۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے ۔ اس لیے ہر شخص پہلی فرصت میں "اپنی تعمیر آپ" کے اصول پر اپنی زندگی کی جدوجہد میں لگ جاتا ہے۔
مگر عجیب بات ہے کہ ملّت کا سوال سامنے آتے ہی تمام لوگ بالکل دوسرے انداز سے سوچنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ملّت کے مسائل کا تعلق خود ملّت سے نہیں بلکہ دوسروں سے ہے۔ اس کا تعلق حکومت سے ہے ، انتظامیہ سے ہے ، فلاں فلاں متعصب جماعتوں اور گروہوں سےہے۔ وغیرہ۔
کوئی کہتا ہے کہ ملّی مسئلہ کے ذمہ دار فلاں فلاں سرکاری افسر ہیں ، اس لیے ان افسروں کو معطل کراؤ۔ کوئی کہتا ہے کہ حکمراں پارٹی اس کی ذمہ دار ہے ، اس لیے الکشن میں اس پارٹی کے امید واروں کے خلاف ووٹ دے کر انھیں شکست دو ۔ کوئی کہتا ہے کہ متعصب جماعتیں اس کی ذمہ دار ہیں ، اس لیے اخبار نکال کر ان کے خلاف دھواں دھار مضامین شائع کرو۔
یہ باتیں مضحکہ خیز حد تک غلط ہیں۔ اور اس غلطی کے سب سے بڑے ذمہ دار مسلمانوں کے نام نہاد رہنما ہیں۔ یہ رہنما اپنے ذاتی مسائل کو تو ہمیشہ حکیمانہ تدبیر کے ذریعہ حل کرتے ہیں۔ اور ملی مسائل کے بارے میں پر جوش تقریریں کر کے پوری قوم کا مزاج بگاڑ رہے ہیں۔ وہ ملّت کے اندر تعمیرکے بجائے احتجاج کا ذہن بنا رہے ہیں۔
کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ملّت کے افراد کو باشعور بنا یا جائے۔ ان کے اندر اخلاقی اوصاف پیدا کیے جائیں۔ دوسروں کے خلاف بیان دینے اور تقریر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔