مسجد
"ہمارا مقصد مسجد والے اعمال کو زندہ کرنا ہے" تبلیغی جماعت کے لوگ جب یہ بات کہتے ہیں تو عام لوگوں کو بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی بات ہے، بلکہ یہی سب سے بڑی بات ہے ۔ " مسجد والے اعمال " کو اگر کسی جامدمعنی میں نہ لیا جائے تو اس میں دین کی ساری حقیقت آجاتی ہے۔
مسجد والے اعمال کیا ہیں۔ مسجد والے اعمال یہ ہیں کہ آدمی کے اندر دینی شعور پیدا کیا جائے۔ گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو انسانی شعور ہی انسانی عمل کی بنیاد ہے ۔ انسان کا خارجی عمل اس کے اندرونی شعور ہی کا خارجی ظہور ہوتا ہے۔ مسجد اسی ربانی شعور کی تعمیر کا مرکز ہے ۔ اسی طرح ہر آدمی کا کوئی شعوری مرکز ہوتا ہے۔ ہر آدمی گویا کسی نہ کسی" مسجد" پر کھڑا ہوا ہے۔ دوسرے لوگ غیر خدائی مسجد پر کھڑے ہوتے ہیں۔ مسلمان وہ ہے جو خدائی مسجد کے اوپر اپنے آپ کو کھڑا کرے۔
ایک سیاح جس نے دنیا کے اکثر حصوں کا سفر کیا ہے ، لکھتا ہے کہ مختلف ملکوں کے سفر کے دوران میں نے ایک عجیب بات یہ دیکھی کہ غیرمسلم ملکوں میں ہر جگہ قدیم زمانے کے بڑے بڑے قلعے کھڑے ہوئے ہیں۔ جب کہ مسلم دنیا میں اس قسم کے مناظر بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ ہر مسلم شہر میں عالیشان مسجد یں ضرور ہیں جن کے اونچے مینار دور سے ان کے وجود کا پتہ دیتے ہیں۔ غیر مسلم ملکوں کی نمایاں عمارتیں اگر ان کے قلعے ہیں تو مسلم ملکوں کی نمایاں عمار تیں ان کی مسجدیں۔
یہ فرق دونوں قسم کے لوگوں کے مزاج کا پتہ دیتا ہے۔ غیر مسلم قوموں کا اعتماد مادی اسباب پر تھا ، اس لیے انھوں نے قلعے اور حصار کھڑے کیے ۔ اس کے برعکس مسلم قوموں کے عقیدہ کے مطابق ان کا اعتماد اللہ پر تھا۔ اس لیے وہ جہاں پہنچے ، انھوں نے بڑی بڑی مسجد یں بنائیں۔
مسجد ، محدود معنوں میں ، صرف عبادت گھر نہیں ، وہ اسلام کے حق میں خدائی قلعہ ہے۔مسجدیں اسلامی دنیا کی نگہبان ہیں۔ مسجد کے ذریعہ اسلام اپنی حیثیت کو زمین پر قائم کرتا ہے ۔ اس کے ذریعے سے وہ دلوں کو مسخر کرتا ہے۔ اس کے ذریعے مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد قائم ہوتا ہے ایک حدیث میں مسجد کو اللہ سے ڈرنے والوں کا گھر کہا گیا ہے ( الْمَسَاجِدُ بُيُوتُ الْمُتَّقِينَ(المصنف - ابن أبي شيبة،حدیث نمبر، 37333)مسجد خدا کا گھر ہے۔ مسجد میں خدائی اعمال کے ذریعے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے جہاں آکر مسلمان اپنے آپ کو اپنے رب کی چھاؤں میں محسوس کریں ۔ وہاں سے دینی معرفت کی غذا لے کر باہر کی دنیا کی طرف لوٹیں۔ خود اسلام پر قائم ہوں اور دوسرے بندگانِ خدا کو اسلام پر قائم رکھنے کی کوشش کریں۔
مسجد ایک قسم کا دار الاسلام ہے۔ وہ اللہ کی یاد کی جگہ ہے۔ وہ اسلامی اتحاد کی تربیت گاہ ہے۔ وہ مسلمانوں کے اعتماد علی اللہ کا نشان ہے ۔ وہ اسلام کی دعوتی اور اصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ہے جب اسلام زندہ تھا تو مسجد صرف مسجد نہ تھی بلکہ وہاں اسلامی زندگی کے تمام شعبے قائم ہوتے تھے۔ مثلاً عبادت گاه ، مدرسہ ، دار القضاء ، اجتماع گاه ، اسپتال ، کتب خانہ ، مسافرخانہ ، مقام مشاورت اصلاح و تبلیغی مرکز و غیره
مصر میں جب بنی اسرائیل کے لیے زمین تنگ ہوگئی تو حکم ہوا کہ اپنے گھروں کو مسجد بنا لو (یونس: 87) اس سے معلوم ہوا کہ حالات جب اہل ایمان کو پسپا کرتے کرتے ان کو آخری جائے پناہ(گھر) تک پہنچا دیں تو اس وقت ان کا گھر ہی جد و جہد کا میدان بن جاتا ہے۔ وہ اپنے گھروں کو مسجد کی صورت دے کر وہاں اپنے کو صبر و نمازکے ساتھ وابستہ کر دیتے ہیں۔ وہ اعتماد علی اللہ اور تعلق مع اللہ میں اپنا مستقبل تلاش کرنے لگتے ہیں۔ مسجد اہل ایمان کے لیے صرف درو دیوار کا مجموعہ نہیں، وہ اپنے رب سے لپٹنے کے لیے تنہائی کا ماحول ہے ۔ اور اللہ پر بھروسے کا مزاج پیدا کر نے لیے مقام ِتربیت ہے۔" مسجد" اس بات کا نشان ہے کہ اہل ایمان کا قافلہ خواہ کتنا ہی پیچھے دھکیل دیا جائے ، اس کے لیے ہر حال میں ایک نئے سفر کا نقطۂ آغاز موجود رہتا ہے۔ اس آخری قلعہ کو کسی حال میں کوئی ان سے چھین نہیں سکتا۔
اسی کے ساتھ مسجد کا ایک عمل اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ مسجد کی دنیا میں خدا پرستی اور آخرت پسندی کا ماحول پیدا کر کے دوسری قوموں کے افراد کو موقع دیا جائے کہ وہ یہاں آکر اسلام کا مطالعہ و مشاہدہ کریں۔ اور اس بات سے آگاہی حاصل کریں کہ ان کے رب کی مرضی ان کے بارے میں کیا ہے اور موت کے بعد خدا کی عدالت میں ان سے کس قسم کا سوال کیا جانے والا ہے۔ مسجد کی یہ دعوتی اور تبلیغی حیثیت قرآن میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
"اگر مشرکین میں سے کوئی شخص تجھ سے امان کا طالب ہو تو اس کو اپنے پاس آنے دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے۔ پھر اس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے (توبہ: 6) معلوم ہوا کہ اسلام کا گھر ، مسلمانوں کے لیے عبادت اور اصلاح کا مقام ہونے کے ساتھ ، دوسری قوموں تک خدا کا پیغام پہنچانے کا مرکز بھی ہے ۔ یہ جس طرح اسلام کے سمٹنے کی جگہ ہے ، اسی طرح وہ اسلام کے پھیلنے کا نقطہ بھی ہے ۔ یہاں خدا کا دین استحکام حاصل کرتا ہے اور یہیں سے وہ اپنے سفر کو بھی جاری کرتا ہے۔ یہ اسلام کا سمندر بھی ہے اور اس کا بھاپ اٹھنے کا مقام بھی۔
مسجد کے اندر تبلیغ کی تاثیر او رتبلیغ کی عظمت تاریخ سے ثابت ہے۔ مغل قبائل نے تیرھویں صدی عیسوی میں مشرق کی جانب سے عالم اسلام پر حملہ کیا ، اور اس کے بڑے حصے میں اسلام کے نشانات کو مٹا ڈالا۔ مگر اسلام کے انھیں کھنڈروں سے اسلام دوبارہ ایک تسخیری طاقت بن کر ابھرا۔ مغلوں نے اسلام قبول کر لیا۔ وہی مسجدیں جن کو ہلا کونے سمرقند سے حلب تک اپنے راستے میں تباہ کر دیا تھا، اس کے پوتوں نے دوبارہ ان مسجدوں کی تعمیر کی اور ان کی چھتوں کے نیچےخدائے واحد کے آگے سجدہ کیا۔
آج اسلام کو جو چیلنج در پیش ہے ، اس کے جواب کی صورت یہ ہے کہ مسجد کو اس کے پورےمعنوں میں زندہ کیا جائے۔ ایک عرب عالم دکتور حسین مونس کے یہ الفاظ نہایت صحیح ہیں :
إنَّ الْإِسْلَامَ الْيَوْمَ يَخُوض مَعْرَكَةً آج اسلام کو ایک جنگ کا سامنا ہے اور اس
وَالْمَسَاجِدُ مِنْ أَهَمِّ أَسْلِحَتِنَا فِيهَا میں مسجد یں ہمار ا نہایت اہم ہتھیار ہیں۔
الوعی الاسلامی، (کویت) رجب 1393 ھ، صفحہ 60