حکیمانہ طریقہ

معین الدین صاحب ( پیدائش 1956) بگہا (ضلع چمپارن) کے رہنے والے ہیں۔ 14 اگست 1988 کی ملاقات میں انھوں نے اپنے یہاں کا ایک واقعہ بتایا جو بے حد سبق آموز ہے۔ بگہا کی جامع مسجد کا نام جامعہ انوار ہے ۔ 25 مارچ 1988 کی رات کو کسی شخص نے خنزیر کاٹ کر اس کا سر مسجد کے اندر سائبان والے حصےمیں ڈال دیا۔ صبح کے وقت جب لوگ نماز فجر کے لیے آئے تو نماز کی ادائگی کے بعد ایک شخص (ارمانی خاں )نے اس کو دیکھا۔ اس وقت بگہا کے امیر تبلیغ حاجی اسرار الحق صاحب حسبِ معمول نمازیوں کو بیٹھا کر تعلیم کر رہے تھے۔ ارمانی خاں نے واقعہ کی خبر دی تو وہ فوراً اٹھ کر مقام واردات پر آئے۔ انھوں نے دیکھا کہ واقعتاًخنزیر کا کٹا ہوا سرمسجد کے اندر پڑا ہے۔

حاجی اسرار الحق صاحب جو الرسالہ کے مستقل قاری ہیں ، انھوں نے شور و غل کرنے کے بجائے یہ کیا کہ فوراً اس کو کپڑے میں لپیٹ کر اٹھا لیا ۔ پھر مؤذن کے ہمراہ وہ تیزی سے اس کو لے کر باہر نکلے اور لے جا کر بیت الخلاء کے کنوئیں (بورنگ) کے اندر ڈال دیا۔ اس کے بعد وہ مسجد میں آئے اور پانی سے اچھی طرح دھو کر مسجد کو صاف کر دیا ۔ اس کے بعد حاجی صاحب ڈاکٹر ایم یو خان سے ملے۔ انھوں نے حاجی صاحب کی کارروائی سے اتفاق کیا۔ دونوں مقامی تھانہ میں گئے۔ وہاں انھوں نے پولیس کو پورے واقعے کی خبر دے دی ۔تھا نہ والوں نے حاجی صاحب کی بہت تعریف کی۔ انھوں نے کہا کہ یہ تو ہمارے اوپر پہاڑ اتنا بڑا بوجھ تھا، آپ نے اس کو ہمارے سر سے ٹال دیا۔

  بگہا کے مہتر خنزیر پالتے ہیں اور اس کا کاروبار کرتے ہیں۔ پولیس والے مہتروں کی بستی  میں گئے اور ان کو سخت ڈانٹ ڈپٹ کی ۔ تاہم اصل مہتر جس نے کسی کے کہنے پر یہ کاروائی کی  تھی ، وہ رات ہی کو بھاگ کر نیپال چلا گیا۔

معین الدین صاحب نے بتایا کہ خبر سن کر بڑی تعداد میں مسلمان مسجد میں جمع ہو گئے اور انھوں نے حاجی صاحب کو برا بھلا کہا۔ مگر ساری بستی کے ہندوؤں نے ان کی تعریف کی۔ مثلاً ایک ہندو دکاندار نے کہا کہ حاجی صاحب نے وہ کام کیا ہے جو مہان آدمی کیا کرتا ہے۔ انھوں نےسیکڑوں آدمیوں کو ہتیا ہونے سے بچالیا۔ ایک اور ہندو نے کہا کہ جس شخص نے مسجد میں خنزیر  ڈالا وہ بہت گرا ہوا انسان ہے۔ جو شخص عبادت خانہ کوگندا کرے اس سے زیادہ برا آدمی اور کوئی نہیں۔وغیرہ ۔

حاجی صاحب نے اعراض اور حکمت کے طریقہ کو اختیار کر کے پوری بستی کو تباہی وبربادی سےبچا لیا۔ اگر وہ خنزیر  کو دیکھ کر مشتعل ہو جاتے تو بگہا  یقینی طور پر فساد کی نذر ہو جاتا۔

 معین الدین صاحب سے میں نے پوچھا کہ اس معاملے میں عام مسلمانوں کا ردِّعمل کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ خبر پھیلی تو مسلمان ادھر اُدھر سے آکر مسجد میں جمع ہونے لگے۔ گیارہ بجے تک ہزاروں کی تعداد میں مسلمان وہاں آچکے تھے۔ وہ لوگ سخت غصہ میں تھے اور حاجی اسرار الحق صاحب کے اوپر بری طرح برس رہے تھے۔ کچھ لوگ برا بھلا کہہ رہے تھے۔ کچھ باقاعدہ گالی دے رہے تھے ۔ ساری باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ تم بز دل ہو ، تم پست ہمت ہو۔ تم نے کیوں خنزیر کو غائب کیا۔ اگر وہ ہمارے پاس موجود ہوتا تو آج ہم انھیں بتا دیتے۔۔۔۔۔

 میں نے کہا کہ یہ بزدلی اور بہادری کا وہ معیا ر ہے جو مسلمانوں کی قومی شریعت میں پایا جاتا ہے ۔ خدا کی شریعت کا معیار اس سے مختلف ہے ۔ خدا کی شریعت کا معیار حدیث میں اس طرح بتایا گیا ہے :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: (‌لَيْسَ ‌الشَّدِيدُ ‌بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ (صحیح  البخاری،حدیث  نمبر، 5763 صحیح  مسلم  ، حدیث  نمبر، 2609) حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طاقتور وہ نہیں ہے جوکُشتی میں کسی کو پچھاڑ دے۔ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے ۔

مذکورہ حدیث بہادری کا یہ معیار بتاتی ہے کہ آدمی غصہ دلانے کے باوجود غصہ نہ ہو۔ اشتعال انگیزی کے باوجود وہ اشتعال میں نہ آئے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے نزدیک بہادری یہ ہے کہ کوئی شخص اگر غصہ دلانے والا فعل کرے تو وہ بھڑک کر اس سے لڑنا شروع کر دیں۔ مسلمان ایسے واقعات کو قومی وقار کا مسئلہ بنا لیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ فوراً فریق مخالف سے لڑ جاتے ہیں۔ اگروہ اس کو شرعی نگاہ سے دیکھیں تو وہ وہی کریں جو مذکورہ حاجی صاحب نے ایسے موقع پر کیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom