برائے اعزاز
ہندستان کی سابق خاتون وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی نے " غریبی ہٹاؤ " کا نعرہ لگایا ۔ اس کے لیے انھوں نے دھواں دھار تقریریں کیں ۔ ہوائی جہازوں پر سارے ملک کے دورے کیے ۔ مگر اندرا گاندھی کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ وہ ملک کے غریبوں کے لیے کوئی حقیقی عملی کام کریں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ "غریبی ہٹاؤ " کا نعرہ انھیں ملک کا وزیر اعظم بنا رہا تھا، جب کہ غریبی ہٹانے کے خاموش عمل میں نتیجہ اس کے برعکس نکلتا۔ وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی بھی کھو دیتیں اور اسی کے ساتھ موجودہ ملی ہوئی عزت اور عظمت بھی۔
موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں کا حال بھی یہی ہے۔ ان کے اندر اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا بہت جوش ہے۔ مگر انھیں صرف اس خدمت سے دلچسپی ہے جو انھیں مقام اعزاز پر بٹھانے والی ہو۔ اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خدمت جس میں کوئی اعزاز نہ ملے بلکہ وہ ساری قوم کے درمیان نکو بن کر رہ جائیں ، ایسی خدمت سے اور ایسے میدان میں سرگرم ہونے سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ۔
یہی وہ صورت حال ہے جس کی بابت قرآن میں کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کو اور ایمان لانے والوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں ، مگر وہ صرف اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں، اوروہ اس کا شعور نہیں رکھتے (البقرہ: 9)
یہ خود فریبی کی بد ترین قسم ہے۔ یہ لوگ بظاہر اپنے آپ کو خادمِ اسلام اور خادم ملّت کی حیثیت سے نمایاں کر رہے ہیں۔ مگر ان کا یہ تضاد ان کی اصل حقیقت کو بتارہا ہے کہ وہ اعزاز کے مقامات پر تو خوب متحرک ہوتے ہیں مگر جہاں دنیوی اعزا ز ملنے کی امید نہ ہو وہاں بے حس اور غیر جانبدار بنے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ کچھ انسانوں کو وقتی طور پر غلط فہمی میں مبتلاکر سکتے ہیں ، مگر وہ اللہ عالم الغیب کو دھوکا نہیں دے سکتے ۔ انھیں جاننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کی حقیقت کے اعتبار سے ان کے ساتھ معاملہ کرے گا نہ کہ ان کے ظاہر کے اعتبار سے۔