فطرتِ انسانی
یہاں ہم دو تصویر یں نقل کر رہے ہیں ۔ دونوں بظاہر سجدہ کی تصویریں ہیں ۔ مگر یہ" فطرت" کا سجدہ ہے نہ کہ "شریعت" کا سجدہ ۔ یہ دونوں امریکہ کے دو کھلاڑیوں کی تصویر یں ہیں ۔ ان کی زندگی میں وہ نازک موقع آیا جب کہ انھوں نے فطرت کی سطح پر اس گہرے احساس کا تجربہ کیا جس کو مذہب کی اصطلاح میں "عبودیت " کہا جاتا ہے ۔ اس احساس سے مغلوب ہو کر وہ زمین پر گر پڑے اور سجدہ کی حالت میں جا کر اپنے اندرونی جذبہ کی تسکین حاصل کی ۔
THE TIMES OF INDIA, TUESDAY, JUNE 26, 1984
Carl Levis kisses the track after winning the 200 meters at the recent U.S track and field tracks. With victory Levis assured himself of a crack at jessic orces, record of 4 gold medals at the Bertin Olympics in 1936.Levis had earlier qualified for the 100 meters, the long jump and the 4X100 meters relay. A.P
سجده فطرت انسانی کی طلب ہے ۔ اس طلب کا حقیقی جواب یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اپنے خالق و مالک کے آگے جھکا دے۔ مگر انسان اپنی بے خبری کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسری دوسری چیزوں کے آگے جھکاتا ہے ، جو چیز صرف ایک خدا کا حق ہے اس کو وہ غیر خدا کو دے دیتا ہے۔
پہلی تصویر امریکی کھلاڑی کارل لیویس کی ہے ۔ لاس اینجلس میں دوڑ کا عالمی مقابلہ ہوا۔ اس میں 22 جون 1984 کو کارل لیو یس نے اعلیٰ کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کے بعد کارل لیو یس کی ایک تصویر اخبارات میں شائع ہوتی ہے۔ اس تصویر کا عکس ہم مقابل کے صفحہ پر نقل کر رہے ہیں۔
اس تصویر میں کارل لیو یس بالکل سجدہ کی حالت میں دکھائی دے رہا ہے۔ جس پٹری پر دوڑ کر اس نے یہ مقابلہ جیتا تھا، اس پٹری کے لیے اس کے دل میں عقیدت اور احسان مندی کا اتنا شدید جذبہ پیداہوا کہ پٹری پر اپنی پیشانی رکھ کر وہ سجدہ میں گر پڑا۔
یہ ایک تازہ مثال ہے جو بتاتی ہے کہ انسانی فطرت میں کس طرح یہ جذبہ چھپا ہوا ہے کہ وہ کسی کو اپنا محسن سمجھے اور اس کے آگے اپنے بڑھے ہوئے جذبات عقیدت کو پیش کر سکے۔
یہ مثال وہ تھی جب کہ احساس ِشکر کے تحت آدمی زمین پر گر پڑتا ہے ۔ اب دوسری مثال لیجئے جس میں احساس ِعجز نے انسان کو مجبور کیا کہ وہ زمین پر اپنا سر رکھ دے ۔ یہ مثال 29 سالہ جان میک انرو کی ہے۔ وہ امریکہ کے رہنے والے ہیں۔ وہ 1981 سے بیڈ منٹن کے عالمی چیمپین تھے۔ 24 جون 1988
THE HINDUSTAN TIMES, NEW DELHI, SATURDAY JUNE 25 1988
DOWN AND OUT … former champion, John Mc Enrue Is floored in his match against Wally Masur of Australia in the Wimbledon Championship on Thursday. Wally Masur won 7-5,7-6 (7-5),6-3––––––––PTI photo.
کو ان کا مقابلہ آسٹریلیا کے 25 سالہ والی ما سور سے لندن میں ہوا۔ اس مقابلے میں جان میک انرو کو شکست ہوئی۔ ان کی عالمی چیمپئن کی حیثیت ختم ہوگئی ۔ہندستان ٹائمس(25 جون 1988)
جان میک انرو پر اس واقعہ کا زبردست اثر پڑا۔ تاہم انھوں نے اپنی شکست کی ساری ذمہ داری خود قبول کی۔ انھوں نے کہا کہ میں بالکل بنیادی تقاضے بھی پورے نہ کر سکا۔ اس نے مجھے بیمار بنا دیا :
I couldn't even do the basics.
It almost made me sick.
اس سلسلے میں اخبارات میں جو رپورٹ شائع ہوئی ہے ، اس میں جان میک انرو کی ایک تصویر بھی شامل ہے ۔ اس تصویر میں سابق چیمپین بالکل سجدہ کی حالت میں زمین پر گرے ہوئےنظر آتے ہیں۔ یہ دراصل انسانی عجز کا اعتراف ہے ۔
یہ دونوں جذبات (احساسِ شکر اور احساسِ عجز ) انسانی فطرت کے نہایت گہرے جذبات ہیں۔ اس دنیا میں انسان کبھی پاتا ہے اور کبھی کھوتا ہے۔ کبھی کامیاب ہوتا ہے اور کبھی نا کام ۔انسان جب کامیاب ہوتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کامیابی کو کسی کا عطیہ قرار دے کر اس کا شکر اداکرے ۔ اسی طرح جب وہ ناکام ہوتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ یہاں کوئی اور طاقت ہے۔ جو سب کے اوپر ہے۔ یہ جذبہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس قادرِ مطلق کے آگے جھک جائے ۔
یہ جذبات انسانی فطرت کے نہایت گہرے جذبات ہیں۔ کوئی بھی انسان ان سے خالی نہیں۔ خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ، امیر ہو یا غریب۔ انسانی فطرت کا علمی مطالعہ کرنے والے ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ یہ جذبات انسانی فطرت میں اس طرح پیوست (Interwoven) ہیں کہ ان کو کسی بھی طرح انسان سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔
یہ جذبہ در اصل خدا کی پرستش کا جذبہ ہے۔ اس جذبہ کا مرجع حقیقتاًوہ ہستی ہے جو انسان کی خالق ہے ۔ یہ جذبہ اس لیے ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک کو پہچانے۔ وہ اس کی عظمت کا اعتراف کرے وہ اس کے آگے اپنے آپ کو ڈال دے۔
مگر انسان فطرت کے راستے سے انحراف کرتا ہے۔ جو چیز خدا کو دینا چاہیے وہ اسے دوسروں کو دیتا ہے۔ اسی کا دوسرا نام شرک ہے۔ آدمی اگر اپنے فطری جذبات کا مرجع ایک خدا کو بنائے تو یہ توحید ہے اور اگر وہ ان کا مرجع کسی دوسری زندہ یا مردہ چیز کو بنائے تو یہ شرک ہے۔ توحید انسانی فطرت کا صحیح استعمال ہے اور شرک انسانی فطرت کا غلط استعمال ۔
انسان عین اپنی فطرت کے زور پر مجبور ہے کہ وہ کسی کو اپنا "خدا " بنائے۔ حقیقی خدا چوں کہ ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا اس لیے وہ دکھائی دینے والی چیزوں کو خدا سمجھ لیتا ہے ۔ جو کچھ خدا کو دینا چاہیے وہ اسے غیر خدا کو دے دیتا ہے۔
انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اوّل میں یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ انسانی فطرت کوئی چیز نہیں ۔ یہ صرف خارجی حالات ہیں جو انسان کی صورت گری کرتے ہیں۔ مگر جدید تحقیقات اس نظریہ کو غلط ثابت کر رہی ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم ایک امریکی تحقیق کا حوالہ دیتے ہیں جس کا خلاصہ حسبِ ذیل الفاظ میں شائع ہوا ہے :
NATURE BEATS NURTURE
Karl Marx and Sigmund Freud were wrong about human nature. Contrary to their view, inherited qualities are far more important than upbringing in determining personality, a team of psychologists has concluded. In an eight year study at the University of Minnesota involving 350 pairs of twins, 44 of them identical, the scientists found that the influence of genes was clearly victorious in the 'nature versus nurture' dispute. The results of their research will be seen as refuting Marxist dogma that insists that man can be 'remade.' 'In particular, we found that the tendency to believe in traditional values and the strict enforcement of rules is more an inherited trait,' said one of the researchers, Dr David Lykken.
The Hindustan Times, Sunday Magazine, January 4, 1987.
کارل مارکس اور سگمنڈ فرائڈ انسانی فطرت کے بارے میں غلطی پر تھے۔ ان کے نقطہ ٔنظر کےبرعکس ، انسانی شخصیت کی تشکیل میں تربیت کے مقابلے میں اندرونی پیدائشی صفات کہیں زیادہ اہم ہیں۔ نفسیاتی ماہرین کی ایک ٹیم نے اس نتیجے کا اعلان کیا ہے۔ منی سوٹا یو نیورسٹی کے تحت کیے جانے والے 8 سالہ مطالعہ میں ، جس میں 350 تو ام جوڑے شامل تھے ، اس میں 44 بالکل یکساں قسم کے تھے ، سائنس دانوں نے پایا ہےکہ جینز کا اثر فطرت بمقابلہ تربیت کی بحث میں واضح طور پر غالب رہا۔ ان کی تحقیق کے نتائج مارکس کے اس مفروضے کی تردید ہیں جس کا شدت سے یہ دعویٰ ہے کہ انسان کو دوبارہ بنایا جاسکتا ہے ۔ ریسرچ ٹیم کے ایک شخص ڈاکٹر ڈیوڈ لکن نے کہا کہ ہم نے یہ پایا ہے کہ روایتی قدروں میں عقیدہ اور قانون کے سختی سے نفاذ کا رجحان زیادہ تر پیدائشی صفات کا نتیجہ ہے۔
مذکورہ واقعہ اور اس طرح کے دوسرے واقعات سے ، یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک برتر ہستی (خالق) کے آگے سپردگی کا جذبہ ایک فطری اور حقیقی جذبہ ہے ۔ اگر وہ غیر فطری اور غیر حقیقی ہوتا تو اس کو اب تک ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ جدید نسل ایسے حالات میں پرورش پا کر نکلی ہے جب کہ اس کے ہر طرف لامذہبیت اور بے خدا تہذیب کا چرچا تھا۔ اس کے باوجود نئی نسل میں یہ مذہبی نفسیات مسلسل طور پر باقی رہی ، وہ کسی طرح ختم نہ کی جاسکی ۔
سیول (کوریا) میں ستمبر 1988 میں کھیلوں کے اولمپک مقابلے ہوئے ۔ اس سلسلےمیں اخبارات میں روزانہ با تصویر رپورٹیں آرہی تھیں۔ انھیں میں سے ایک تصویر وہ تھی جو 30 ستمبر کے اخبارات میں شائع ہوئی ۔ آپ ٹائمس آف انڈیا ( 30 ستمبر 1988 ) کا صفحہ 10 دیکھیں۔ وہاں ایک عورت آپ کو عین نماز کی حالت میں نظر آئے گی۔ یعنی وہ حالت جو نماز کے خاتمہ پر کسی نمازی کی ہوتی ہے ۔ اس تصویر میں مذکورہ عورت بالکل نماز کی ہیئت میں دونوں پاؤں توڑ کر بیٹھی ہوئی ہے۔ اور اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر منھ کے پاس اس طرح کیے ہوئے ہے جیسے وہ نماز سے فارغ ہو کر دعا میں مشغول ہو۔ یہ کوئی نمازی عورت نہیں ہے۔ یہ کیلی فورنیا کی ایک 27 سالہ کھلاڑی خاتون ہے جس کا نام فلارنس گریفتھ جائنر (Florence Griffith Joyner) ہے۔ 29ستمبر کو 200 میٹر کی دوڑ میں اس نے گولڈ میڈل حاصل کیا ۔ اور دنیا کی تیز ترین عورت (Fastest woman) قرار دی گئی۔ اس کامیابی کی خبر نے اس کی اندرونی ہستی کو بے قرار کر دیا ۔ وہ ابھی اپنے کھیل کے لباس ہی میں تھی کہ وہ زمین پر گر پڑی۔ وہ بے اختیارانہ طور پر نمازی کی ہیئت میں بیٹھ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر خداسے دعا کرنے لگی اور اس کے سامنے اظہار جذبات میں مشغول ہو گئی ۔
یہ واقعہ اس بات کا ایک اظہار ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک محسن اور منعم کا تصور نہایت گہرائی کےساتھ چھپا ہوا ہے ۔ آدمی کو جب کوئی غیر معمولی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کا اندرونی جذبہ بے اختیارانہ طور پر چاہنے لگتا ہے کہ وہ اس کے آگے جھک جائے ، وہ اس احسان کو حقیقی محسن کے خانے میں ڈال دے ۔
بے چین روح
بلیر فاولر (پیدائش 1921) امریکہ کے ایک راکٹ انجینیر ہیں ۔ وہ اعلیٰ قابلیت کے ان انجینیروں میں شامل تھے جن کی کوششوں نے آخر کار سٹرن راکٹ کی شکل اختیار کی ۔ جنوری 1986 میں بلیر فاولر چند دن کے لیے نئی دہلی آئے۔ یہاں انھوں نے تاج پیلیس (ہوٹل) میں ہندستان ٹائمس کے نمائندہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی اب ایک مکمل تبدیلی سے دوچار ہو چکی ہے ۔ ان کی بیوی ایک کامیاب میڈیکل ڈاکٹر تھیں ۔ اور وہ خود اپنے کیریر کی چوٹی پر پہنچ چکے تھے کہ دس سال پہلے دونوں نے اپنا اپنا کام یک لخت چھوڑ دیا ۔
اس کے بعد وہ دونوں شہر سے باہر کیلی فورنیا کے ایک معمولی فارم میں چلے گئے۔ یہاں وہ دونوں بالکل ساده قدیم دیہاتی انداز میں زندگی گزارتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ سے لکڑی کاٹتے ہیں۔ لکڑی کی آگ پر خود اپنے ہاتھ سے کھانا پکاتے ہیں۔ وہ مشینی دنیا سے بھاگ کر فطرت کی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی اس سادہ زندگی پر بالکل خوش ہیں ۔ انھوں نے کیوں ایسا کیا ۔ مسٹر بلیر فاولر کے الفاظ میں ، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہمارا علم جتنا تر قی کرتا ہے اتنا ہی ہم کو اپنی جہالت کا احساس ہوتا ہے :
As our knowledge grows the more one gets convinced that he is ignorant.
انھوں نے علم کی دنیا میں اپنا سفر شروع کیا تھا۔ مگر آخر کار انھیں معلوم ہوا کہ ان کا ہر اگلا قدم صرف جہالت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انسانی علم آدمی کو حقیقی علم تک نہیں پہنچاتا ۔
مزید یہ کہ مذکورہ سائنسی ماحول میں ان کو روحانی سکون حاصل نہ تھا۔ بلیر فاولر کو ایک ایسے احاطہ میں کام کرنا پڑتا تھا جس کے چاروں طرف چار فیٹ کی مضبوط دیواریں کھڑی ہوئی تھیں ۔ ان کا کام یہ تھا کہ ہائیڈ روجن گیس کو رقیق ہائیڈ روجن میں تبدیل کریں۔ اس کے لیے بڑے سخت حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ نیز ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ گیس کا ذخیرہ پھٹ نہ جائے۔ یہ صورت حال ایک مستقل ذہنی تناؤ کا باعث بنی رہتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا سے کمتر کوئی چیز انسان کو سکون عطا نہیں کر سکتی ۔ خواہ وہ سائنسی علوم ہوں یا مادی اور مشینی ترقیاں۔
Total change
NEW DELHI, Jan. 27- "As our knowledge grows the more one gets convinced that he is ignorant" says Blair Fowler, an aero-jet engineer who worked on the first liquid propulsion rocket in the United States that ultimately became the Saturn rocket with several million pounds thrust.
On a brief holiday in India, Mr. Fowler told this correspondent at the Taj Palace, New Delhi that his life had now undergone a total change. At the peak of his career ten years ago he and his wife, who too had a prosperous medical practice, simply gave up their jobs and money and retired to a Californian ranch "to work with our bare hands"
Mr. Fowler holds out his hands, now toughened and also rough by physi- cal work like wood cutting, carpentry, blacksmithy, etc. "When I was in the rocket propulsion group my hands had become soft through constant paper work designing and redesigning."
At 65, Mr. Fowler looks quite young and strong. "We do a lot of wood cutting for firewood in our home which is heated by log fire". There is a furnace and forge also in his ranch where he hammers iron into shape like the blacksmiths used to do in the olden days.
Looking back at the development in rocketry which now has put man on the moon and done several extraordinary things, this aero-engineer recalls the way they worked to develop the liquid hydrogen and oxygen burning rocket motor under Theodore Von Carman, a well known rocket expert.
There were no electronic instruments at that time even though they had to work with pumps with speeds of 40,000 rpm. Kryogenics, the science of supercooling, was still in its infancy. How liquid hydrogen and oxygen would behave was also not known.
They worked behind three feet concrete walls and lived in constant fear of explosion. In fact there was one such explosion "but we escaped". To obtain even a few litres of liquid hydrogen, repeated cooling using liquid nitrogen and dripping techniques under high vacuums had to be utilised. "We learnt later that the Soviet scientist Kapista was also developing these engines parallely." Subsequently, Mr. Fowler worked on nuclear rocket, development but the project was given up as unpracticable.
Why did he and his wife give up their practice and money to go back to ranch life? He says: "Though we were quite well off, we were not living, each one busy in his own work. We did not have time to talk to each other. Today we are a happy couple as we share our work. My wife kneads the dough and bakes the bread and we have much time for mutual communication."
Mr. Fowler is very much influenced by Gandhian thinking like hard physical work and its elevating nature, the need for man to be self-sufficient and simple living. He thinks that there is lot of sense in that philosophy.
The Hindustan Times, January 28, 1986
جدید انسان
امریکہ کے ایک کرور پتی کے بارے میں ایک خبر پڑھی۔ خبر کا عنوان تھا اکتا کر جان دیدی (Bored To Death) اس عنوان کے نیچے خبر کے الفاظ یہ تھے :
The millionaire was tired, weary and bored. He called for his Lincoln continental limousine, got in, and said to the chauffeur: "James, drive full speed over the cliff. I've decided to commit suicide."
کر ور پتی تھکا ہوا تھا ۔ وہ افسردہ اور اکتایا ہوا تھا ۔ اس نے اپنی قیمتی کار منگوائی۔ اس کے اندر بیٹھا۔ اور شوفرسے کہا : "جیمز ، ڈھلوان کے اوپر پوری رفتار سے گاڑی دوڑاؤ ۔ میں نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کیا ہے " ۔(ٹائمس آف انڈیا 26 فروری 1985)
جن لوگوں کے پاس پیسہ کم ہو وہ بہت سے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ مسائل وہی ہیں جو پیسہ کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان کے پاس پیسہ زیادہ آجائے تو ان کے تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح پیسہ کی کمی کے مسائل ہیں اسی طرح پیسہ کی زیادتی کے بھی مسائل ہیں۔ جس شخص کے پاس پیسہ کی افراط ہو جائے اس کے پاس مسائل کی بھی افراط ہو جاتی ہے حتیٰ کہ اس کو سکون کے ساتھ رات کے وقت سونا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
اس دنیا میں پر سکون زندگی کا راز صرف ایک ہے۔ اور وہ وہی ہے جس کو مذہب کی زبان میں قناعت کہا جاتا ہے۔ یعنی جو کچھ خدا نے دیا ہے اس پر صابر وشاکر رہنا۔ عدم اطمینان در اصل عدم قناعت کی نفسیاتی قیمت ہے جو ہر اس آدمی کو بھگتنی پڑتی ہے جو خدا کی تقسیم پر راضی نہ ہو۔
عام انسان صرف یہ جانتا ہے کہ اس کا مصرف یہ ہے کہ وہ دولت کمائے ۔ حالانکہ اگر دولت کماناسب کچھ ہو تو دولت مند آدمی کبھی کسی مسئلے سے دوچار نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت حاصل کرنے سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ زندگی کا علم حاصل کیا جائے۔ آدمی کو جینا آجائے تو وہ ہر حال میں سکون کےساتھ جی سکتا ہے خواہ اس کے پاس کم پیسہ ہو یا زیادہ پیسہ۔