اپنی غلطی
ایک صاحب کا حال مجھے معلوم ہے۔ وہ نہایت تندرست تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اچھا ذہن عطا کیا تھا ۔مگر وہ اپنی زندگی میں کامیاب نہ ہو سکے۔ انھوں نے جو کام بھی کیا وہ ناکامی پر ختم ہوتا رہا ۔یہاں تک کہ ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ اسی حال میں وہ ایک روز سٹرک پر ایک جیپ سے ٹکرا گئے ۔ اس حادثےمیں ان کا انتقال ہو گیا ۔
ان کی ناکامی کی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو کامیابی کے راستے میں استعمال نہیں کیا۔ اپنی ناکامی کا ذمہ دار وہ ہمیشہ دوسروں کو قرار دیا کرتے تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی اپنی ذات کے سوا کوئی بھی شخص نہیں جس کو واقعی طور پر ان کی ناکامی کا ذمہ دار بتا یا جا سکے ۔
انھوں نے تعلیم کے لیے اسکول میں داخلہ لیا۔ مگر وہ میٹرک تک پہنچے تھے کہ انھیں پالیٹکس سے دل چسپی ہوگئی۔ چنانچہ دسویں درجے کے امتحان میں وہ فیل ہو گئے ۔ اس کے بعد ان کی تعلیم آگے جاری نہ رہ سکی ۔ انھوں نے ایک دکان شروع کی مگر اس کا کوئی مقرر وقت نہ تھا۔ جس وقت چاہتے وہ اپنی دکان کھولتے اور جب چاہتے اس کو بند کر دیتے۔ نتیجہ یہ ہو کہ ان کی دکان ختم ہوئی ۔ انھوں نے ایک ملازمت کی۔ وہ ملازمت ان کے مفروضہ معیار سے کم تھی ۔ چنانچہ وہ مستقل جھنجھلاہٹ میں مبتلا رہتے اور اکثر اپنے مالک سے لڑ جاتے۔ آخر کار مالک نے عاجز آکر انھیں ملازمت سے نکال دیا۔ وغیرہ
اسی طرح وہ مختلف کام کرتے رہے اور ہر کام بے انجامی پر ختم ہوتا رہا ۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی شکایت کرتے رہتے ––––––– فلاں متعصب ہے ، فلاں نے عناد کی وجہ سے میرے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے۔ فلاں مجھ کو ترقی کرتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا۔ اسی طرح وہ اپنی ہرنا کامی کو دوسروں کے او پر ڈالتے رہے۔ وہ ساری زندگی دوسروں کو غلط ثابت کرتے رہے ، مگر آخری نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود غلط ہو کر رہ گئے ۔
دوسروں کو اپنی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرانا بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ مشکل صرف یہ ہے کہ اس کی قیمت بہت مہنگی دینی پڑتی ہے۔ وہ یہ کہ آدمی کی بربادی ہمیشہ باقی رہے ۔ اس عالمِ اسباب میں وہ کبھی ختم ہی نہ ہو۔