ایک تاثر
ایک مجلس میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ ایک مسلمان شاعر نے اپنے نعتیہ کلام سے حاضرین کی تواضع کی۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک قطعہ پڑھا ۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ احد اور احمد دونوں ایک ہیں۔ یہ صرف " م " کا پردہ ہے جس کی وجہ سے دونوں بظاہر الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ جب حشر برپا ہو گا اور حقیقتیں کھلیں گی تو یہ پردہ ہٹ جائے گا ، اور پھر دونوں اس طرح ایک جیسے ہو جائیں گے کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا مشکل ہوگا۔ ایک شعر یہ تھا :
لوگ محشر میں حیران رہ جائیں گے خدا کون ہے ، مصطفی کون ہے
اسی طرح ایک مسلمان مقرر کا یہ حال تھا کہ جب وہ تقریر کرتے تو اپنی تقریر سے پہلے یہ جملہ کہتے : " سب کا خدا خدا ہے ، میرا خد امحمد" یہ دونوں شعر غالی بدعتی کے الفاظ معلوم ہوتے ہیں ۔ مگر جو لوگ بظاہر اس بدعت سے پاک ہیں ، وہ اس سے بھی زیادہ بڑی بدعت میں مبتلا ہیں۔ بدعتیوں نے پیغمبر کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے ، اور دوسرے مسلمانوں نے اپنے اکابر کو۔ ایک اگر اپنے اس عقیدہ کو زبانِ قال سے دہرا رہا ہے تو دوسرا زبان حال سے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ خدا پرست نہیں ہیں بلکہ انسان پرست ہیں۔ ان میں سے کوئی پیغمبر کو خدا کا درجہ دیے ہوئے ہیں اور کوئی غیر پیغمبر کو۔ کوئی اپنے اکابر کی عظمتوں میں کھویا ہوا ہے ۔ کسی کو اپنے رہنماؤں کا قد اتنا بڑا دکھائی دیتا ہے کہ اس کے آگے خدائی بلندیاں بھی چھوٹی ہوگئی ہیں۔ کسی کا یہ حال ہے کہ اس کو اپنے بزرگ اتنے زیادہ مقدس نظر آتے ہیں کہ ان پر خالص علمی اور دینی تنقید کرنا بھی کفر و فسق سے کم نہیں۔ حتیٰ کہ ان کے خلاف زبان کھولنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کے بعد آدمی کی جان اور مال اور آبرو سب ان کے لیے مباح ہو جائے۔
اگر حقیقت وہی ہو جو قرآن میں بیان کی گئی ہے تو قیامت لوگوں کے تصورسے کتنا زیادہ مختلف ہوگی ، لوگ کن کن بڑائیوں میں گم ہیں ، مگر جب قیامت آئے گی تو معلوم ہوگا کہ یہاں ایک خدا کے سوا کسی کو کوئی بڑائی حاصل نہ تھی۔ شاعر کا شعر کسی قدر تبدیلی کے ساتھ عین درست ہے :
لوگ محشر میں حیران رہ جائیں گے کہ تھی بات کیا ، ہم نے سمجھا تھا کیا