حقیقت بے نقاب
با بری مسجد کی بازیابی کے لیے "اجودھیا مارچ" کی تحریک طوفان کی طرح اٹھی اور غبارہ کی طرح پھٹ گئی۔ بظاہر یہ ایک المناک حادثہ تھا۔ تاہم اطمینان کی بات یہ ہے کہ جو غبارہ پھٹا ، وہ نام نہاد مسلم قیادت کا غبارہ تھا۔ ملّت ابتدائی طور پر قائدین کا ساتھ دینے کے بعد آخر کار ان سے الگ ہوگئی ، اور اس طرح وہ ان قائدین کے فتنہ سے بچ گئی جو اس کو حوالہ آتش کر کے اپنے جھوٹے قیاد تی چہرہ کو روشن کرناچاہتے تھے۔
بابری مسجد کا قضیہ بہت پرانا ہے۔ وہ تقسیم (1947) کے قبل سے چلا آرہا ہے۔ تاہم پر امن تدبیر کے دائرہ سے نکل کر ایجی ٹیشن کے دائرہ میں داخل ہونے کا دور 1987 کی ابتداسے شروع ہوتا ہے۔ کچھ نام نہاد مسلم لیڈروں نے بابری مسجد کی بازیابی کے نام پر 26 جنوری 1987 کو ریپبلک ڈے کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ یہ اس معاملے میں غیر پر امن انداز اختیار کرنے کا آغاز تھا۔ تاہم یہ لغواقدام اخباری گرمی پیدا کرنے کے بعد آخر وقت میں واپس لے لیا گیا۔
اس کے بعد 30 مارچ 1987 کو" لاکھوں" مسلمانوں کی ریلی نئی دہلی (بوٹ کلب) میں جمع ہوئی۔ یہاں نہایت اشتعال انگیز تقریریں ہوئیں اور" بابری مسجد لیکے رہیں گے"۔ جیسے پر جوش نعرے لگائے گئے۔ (ملاحظہ ہو الرسالہ نومبر 1988 ، صفحہ 24) لیڈروں نے اپنی دھواں دھار تقریروں کے دوران اعلان کیا کہ وہ مارچ کر کے اجودھیا جائیں گے اور مسجد میں فاتحانہ داخل ہو کر وہاں جمعہ کی نماز ادا کریں گے ۔ اس کے بعد دسمبر 1987 کی میٹنگ میں دو مارچ کا فیصلہ کیا گیا :
1۔ قائدین کا منی مارچ 12 اگست 1988
2۔ مسلم عوام کا لانگ مارچ 14 اکتوبر 1988
اعلان کے مطابق دونوں مارچ فیض آباد سے شروع ہو کر اجودھیا کی بابری مسجد پر ختم ہونے والا تھا۔ پہلا مارچ تقریباً پانچ سو کی تعداد میں قائدین اور مسلم نمائندوں پر مشتمل ہوتا اور دوسرے مارچ میں سارے ملک کے مسلم عوام لاکھوں کی تعداد میں فیض آباد میں جمع ہوتے اور وہاں سے یلغار کرتے ہوئے اجودھیا پہنچتے اور بابری مسجدمیں داخل ہو جاتے۔
مگر عملاً نہ منی مارچ ہو سکا اور نہ لانگ مارچ ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ادھر مسلم قائدین کی طرف سے اجودھیا مارچ کا اعلان ہوا ۔ دوسری طرف رام جنم بھومی سنگھرش سمتی ، بجرنگ دل اور وشو ہند و پریشد جیسی انتہا پسند ہند و تنظیمیں متحرک ہوگئیں مسلمانوں کے چیلنج نے ان کو نئی زندگی دے دی ۔ انھوں نے کھلے طور پر کہنا شروع کیا کہ اگر مسلمانوں نے اجودھیا مارچ کیا تو انھیں اجو د ھیا پہنچنے سے پہلے کچل دیا جائے گا۔ اس کے بعد مسلم قائدین کی طرف سے یہ بہانہ نکال کر12 اگست کے مارچ کو ملتوی کر دیا گیا کہ مرکزی حکومت اس معاملہ میں دلچسپی لے رہی ہے، اور وہ دونوں فریقوں سے بات چیت کر کے اس مسئلہ کا ایسا حل نکالنا چاہتی ہے جو دونوں فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔
قومی آواز (27 ستمبر 1988) کی رپورٹ کے مطابق 26 ستمبر کو نئی دہلی میں بابری مسجد تحریک کی مرکزی رابطہ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی ۔ رابطہ کمیٹی نے موجودہ حالات کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ 14 اکتوبر 1988 کو لاکھوں مسلمانوں کا جو عوامی مارچ ہونے والا تھا، اس کو ابھی ملتوی کر دیا جائے ۔ البتہ اسی تاریخ (14 اکتوبر) کو قائدین تحریک کا وہ مارچ ہو گا جو اس سے پہلے 12 اگست 1988 کو کیا جانا طے تھا۔
بابری مسجد تحریک کے نام نہا دلیڈر مسلسل یہ اعلان کرتے رہے کہ "اجودھیا مارچ ضرور ہو گا " مثلاً قومی آواز (8 اکتوبر 1988) کے مطابق ، بابری مسجد رابطہ کمیٹی کے کنوینر نے اعلان کیا کہ مارچ کو ملتوی کرنے یا ختم کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔" اسی کے ساتھ انھوں نے کہا کہ "رابطہ کمیٹی نے وزیر اعلیٰ اتر پردیش نرائن دت تیواری سے تحریری درخواست کی ہے کہ وہ مارچ میں حصہ لینے والے مسلم رہنماؤں کو تحفظ مہیا کریں " (قومی آواز ، 8 اکتوبر 1988 ، صفحہ 1 )
بابری مسجد تحریک کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر کی طرف سے ایک اخباری اعلان اس مضمون کا شائع ہوا کہ :
"کچھ اخباروں کے ذریعہ غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اجودھیا مارچ ، جس میں ملک کے طول و عرض سے رضا کار حصہ لینے والے ہیں ، ملتوی ہو گیا ہے۔ اجودھیا مارچ ملتوی نہیں ہوا ہے، اور اس کی تاریخ 14 اکتوبر 1988 ہے۔ تمام ریاستی و ضلع اور شہر ایکشن کمیٹیوں سے اپیل ہے کہ وہ اجودھیا مارچ کی تیاری جاری رکھیں ۔ محلے محلے ، مسجد مسجد، رضا کاروں کا اندراج جاری رہے۔ اور قصبہ بہ قصبہ محلہ بہ محلہ ٹولیاں بنائی جائیں۔ اور ان کے مصارف سفر کے لیے وسائل جمع کیے جائیں ۔ ریل یا بس سے فیض آبا د 13 اکتوبر تک پہنچنے کا پروگرام بنایا جائے"۔ (سہ روزہ دعوت ، یکم اکتوبر 1988)
بابری مسجد تحریک کے قائدین 13 اکتوبر سے پہلے مسلسل یہی خبر نشر کرتے رہے کہ اجودھیا مارچ 14 اکتوبر کو ضرور ہوگا، وہ ختم یا ملتوی ہونے والا نہیں۔ اس طرح کے اعلانات اور تقریروں نے کٹر ہندوؤں کو مزید ابھارا۔ انھوں نے مارچ کو نا کام کرنے کے لیے جوابی منصوبہ بنانا شروع کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے جو کچھ کیا ، ان میں سے ایک یہ تھا کہ انھوں نے مجوزہ مارچ سے پہلے8 اکتوبر 1988 کو یوپی میں ایک بند منایا ۔ یہ بند مجوزہ اجودھیا مارچ کے خلاف تھا۔ اس موقع پر جگہ جگہ اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں۔ اس کے نتیجے میں تناؤ بڑھا اور یوپی کے کئی مقامات ( مظفر نگر ، علی گڑھ ، بہرائچ، جھانسی ، کھتولی ، فیض آباد ، گوپال گنج وغیرہ )میں فساد ہو گیا ۔ اس میں بہت سے مسلمانوں کی جانیں گئیں اور انھیں زبر دست مالی نقصانات ہوئے۔
نام نہاد قائدین کی طرف سے بدستور یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ اجودھیا مارچ ضرور ہو گا۔ اسی کے ساتھ بار بار حکومت سے یہ مطالبہ بھی جاری تھا کہ وہ مارچ میں حصہ لینے والوں کے لیے تحفظ فراہم کرے۔ مگر حکومت نے تحفظ کی یقین دہانی کرنے سے عملاً انکار کر دیا۔ اس کے برعکس حکومت نے کہا کہ آپ لوگ اپنا مارچ ملتوی کر دیں ۔ ہم دونوں فریقوں سے بات چیت کر کے کسی متفقہ حل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
مسلم قائدین بار بار یہ اعلان کر چکے تھے کہ اجودھیا مارچ مجوزہ تاریخ کو ضرور ہو گا ، وہ کسی بھی حال میں رکنے والا نہیں۔ مگر ایک طرف انھوں نے دیکھا کہ حکومت ان کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسی حالت میں مارچ کرنا، اپنے آپ کو فریق ثانی کی جارحیت کے حوالے کرنے کے ہم معنی ہوگا۔
دوسری طرف 8 اکتوبر 1988 کو ہندوؤں کی کٹر جماعتوں نے جو بند منایا ، اس کے نتیجے میں یوپی کے مختلف علاقوں میں خوں ریز فسادات ہوئے۔ نیز اس قسم کے دوسرے سخت اسباب نے ظاہر کر دیا کہ اب اگر اجودھیا مارچ کیا جاتا ہے تو اس کے خلاف تشدد کا ہونا یقینی ہے ۔ ان حالات کو دیکھ کر خود مسلم عوام بھی مارچ میں اپنی دلچسپی کھو چکے تھے ۔ موت کے اس سفر میں شرکت کرنے کے لیے وہ پر جوش نہیں رہے تھے۔
واضح علامات کی بنا پر قائدین نے محسوس کیا کہ موجودہ حالات میں اگر وہ مارچ کرتے ہیں تو انھیں مسلم عوام کی حمایت حاصل نہ ہو سکے گی۔ وہ دو طرفہ طور پر بے یار و مددگار ہو کر رہ جائیں گے۔ چنانچہ مسلم قائدین نے دوبارہ عافیت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اجودھیا مارچ کی تاریخ سے ایک دن پہلے اس کے التوا( صحیح تر لفظ میں خاتمہ) کا اعلان کر دیا۔
التوا کی آزمودہ تدبیر اختیار کر کے مسلم قائدین نے اپنی جان بچالی ۔ مگر 8 اکتوبر کے بندھ کے نتیجے میں جو تشدد پیدا ہوا اس میں سیکڑوں مسلم خاندان بربادی کا شکار ہو کر رہ گئے۔ بابری مسجد کا مسئلہ بدستور شدیدتر انداز میں باقی رہا۔ وہ مسلمانوں کی قبروں کے سوا کسی اور چیز میں اضافہ نہ کر سکا۔
اجودھیا مارچ کی تاریخ سے کچھ پہلے میں نے ایک عام قسم کے مسلمان سے پوچھا : کیا اجودھیا مارچ ہوگااس نے جواب دیا : "مولانا صاحب، جان ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے" ۔ مطلب یہ تھا کہ اب جب کہ اجودھیا مارچ کرنا اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنا ہے تو کون ہو گا جو جان بوجھ کر اپنے آپ کو موت کے گڑھےمیں ڈالے۔
مسلم عوام شروع میں اپنی سادگی اور نا سمجھی کی بنا پر قائدین تحریک کے ساتھ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قائدین کے جلسوں کی بھیڑ بڑھا کر وہ بابری مسجد کے مسئلہ کو حل کر لیں گے ۔ مگر آخر میں انھیں نظر آیا کہ قائدین کی حقیقت پُر شور ڈھول کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ نیز یہ کہ بابری مسجد کی طرف اقدام کرنے سے وہ صرف اپنے جان و مال کو کھوئیں گے ، اصل مسئلہ جیسا ہے بدستور ویسا ہی پڑا رہے گا۔ اس قسم کا مارچ صرف ملّت کی بر بادی میں اضافہ کرے گا نہ کہ اس کی آبادی میں۔
یہ منظر دیکھنے کے بعد ، اگرچہ تاخیر سے مسلم عوام مسئلہ کی نوعیت کو سمجھ گئے۔ ان کے رویہ سے صاف ظاہر ہو گیا کہ مارچ ہونے کی صورت میں وہ قائدین تحریک کا ساتھ نہیں دیں گے ۔ اب "قائدین تحریک" اپنے آپ کو میدان میں اکیلا پارہے تھے ۔" لاکھوں عوام" کی مفروضہ بھیڑدور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتی تھی جو ان کی تقریروں پر نعرہ لگائے اور اس طرح ان کی شان قیادت میں اضافہ کرے۔ بے بسی اور تنہائی کا یہ منظر دیکھ کر انھوں نے الفاظ کا ایک مجموعہ مرتب کیا اور اس کو اخبار میں بھیج کر راتوں رات مارچ کے التوا کا اعلان کر دیا۔
یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ یہ لطیفہ اجودھیا مارچ کے نعرہ پر پوری طرح چسپاں ہوتا ہے۔مدینہ کے سفر ( مارچ 1984) میں میری ملاقات ایک فلسطینی نوجوان سے ہوئی۔ ان کا نام مصطفیٰ شاور تھا۔ وہ تعلیم کی غرض سے مدینہ میں مقیم تھے اور نہایت دلچسپ باتیں کیا کرتے تھے۔
مصطفیٰ شاور نے ایک لطیفہ سنایا۔ ایک حاکم تھا۔ اس کا ایک اونٹ تھا جو ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ اور کھیتوں اور باغوں میں بہت نقصان کرتا تھا ۔ گاؤں کے لوگ پریشان ہو کر اپنے خطیب (امام مسجد) کے پاس گئے اور کہا کہ اس کا کچھ علاج کیجیے۔ خطیب کے ذہن میں ایک تدبیر آئی۔ اس نے گاؤں والوں سے کہا کہ تم سب جمع ہو کر میرے ساتھ چلو۔ میں حاکم کی قیام گاہ پر پہنچ کر اس کو بلاؤں گا۔ جب حاکم با ہر آئے گا تو میں بلند آواز سے کہوں گا : یا حَاکم جَمَلک (حاکم تمہارا اونٹ) اس کے جواب میں تم لوگ پیچھے سے آواز لگانا : امْنَعهُ عَنا ( اس کو ہم سے روک دے)
خطیب صاحب روانہ ہوئے اور جوش میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ شروع میں گاؤں کے لوگ بھی ان کے پیچھے تھے۔ مگر ساتھ ہی ان پر حاکم کا خوف طاری تھا۔ چنانچہ ایک ایک کر کے وہ راستے میں چھٹنے لگے۔ یہاں تک کہ سب کے سب خاموشی سے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ آخر میں خطیب صاحب کے سوا کوئی اور باقی نہ رہا۔ خطیب صاحب جوش میں بڑھتے ہوئے حاکم کے مکان پر پہنچ گئے۔ وہاں دروازہ کھٹکھٹایا ۔ حاکم باہر آیا تو اس کو دیکھ کر خطیب صاحب نے حسب ِقرار داد بلند آواز سے کہا: یا حَاکم جَمَلک ۔ ان کا خیال تھا کہ گاؤں والے ان کے پیچھے ہیں اور وہ سب مل کر امْنَعهُ عَنا کا نعرہ لگائیں گے۔ مگر ان کی امیدوں کے خلاف پیچھے سے کوئی آواز نہ آئی۔ وہ بار بار یا حَاکم جَمَلک کہتے رہے مگر پیچھے کوئی نہ تھا جو اس دوسرے جملہ کو دہرائے ۔ حاکم نے پوچھا کہ آخر تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ اب خطیب صاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو انھیں معلوم ہوا کہ وہاں کوئی بھی نہیں ہے۔ اس صورت حال سے وہ گھبرا اٹھے ۔ انھوں نے اپنے سابقہ نعرے کو بدل دیا اور حاکم سے کہا : يَحْتَاجُ إلَى النَّاقَةِ (وہ اونٹنی چاہتا ہے )یہ کہا اور فوراً واپس روانہ ہوگئے۔
تقریباً یہی حال با بری مسجد کی بازیابی کے لیے اجودھیا مارچ کے نعرہ کا ہوا ہے ۔ نام نہاد قائدین نے اعلان کیا تھا کہ وہ بابری مسجد کی بازیابی کے لیے دو مارچ (12اگست ، 14 اکتوبر ) کریں گے۔ انھوں نے اپنی پر جوش تقریروں میں کہا تھا کہ ملک بھر سے لاکھوں مسلمان "بابری مسجد لے کے رہیں گے " کا نعرہ لگاتے ہوئے اجو دھیا پہنچیں گے اور بابری مسجد میں فاتحانہ داخل ہو کر وہاں جمعہ کی نماز ادا کریں گے۔
اس کے بعد حالات میں ایسی تبدیلی ہوئی کہ اجو د ھیا مارچ لوگوں کو خونی مارچ دکھائی دینے لگا۔ مسلمان عام طور پر یہ کہنے لگے کہ اجودھیا مارچ تو موت کی طرف مارچ ہے ۔ ہم کیوں خواہ مخواہ اپنے آپ کومروائیں۔ اور اپنے بچوں کو یتیم اور اپنی عورتوں کو بیوہ کرنے کے لیے بے فائدہ اجودھیا مارچ کریں۔
اب قائدین تحریک کا وہی حال ہوا جو مذکورہ امام کا ہوا تھا۔ انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو انہیں "لاکھوں کا مجمع " کہیں دکھائی نہیں دیا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے نعرہ کو بدل دیا ۔ اب وہ اجودھیا مارچ کی اپیل کرنے کے بجائے مسلمانوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ مسجدوں میں جا کر دعا کرو۔ مسلمان تو صرف خدا کی طرف مارچ کرنے والا ہوتا ہے ، انسانوں کی طرف مارچ کرنے سے اسے کیا کام۔
اس میں ،میں صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ قائدین اگر یہی بات شروع سے کہتے تو یقیناً ان کے الفاظ کی قیمت تھی مگر اب ان کے ان الفاظ کی کوئی قیمت نہیں ۔ اب اس قسم کے الفاظ ان کی بدترین نا اہلی کا اشتہارہیں، نہ کہ ان کی اہلیت اور لیاقت کا ثبوت۔
میری ڈائری میں 14 فروری 1986 کے تحت یہ الفاظ درج ہیں :
آج جمعہ کا دن تھا۔ بابری مسجد تحریک کے لیڈروں کی پکار پر آج "یوم بابری مسجد" منایا گیادہلی اور یو پی کی مسجدوں میں پر جوش تقریریں ہوئیں۔ میں نے آج دہلی کی ایک مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی۔ امام صاحب آج معمول سے زیادہ پر جوش نظر آرہے تھے۔ وہ بلند آواز سے تقریباً چیخنے کی زبان میں بول رہے تھے۔ انھوں نے کہا :
"ہم اپنی گردنیں کٹوا دیں گے۔ ہمارے اوپر چاہے ٹینک چلا دیے جائیں اور توپ کے گولے برسائے جائیں ، مگر ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہماری مسجدوں پر قبضہ کیا جائے اور ان کی بے حرمتی کی جائے" ۔ وغیرہ وغیرہ۔
نماز کے بعد مسجدوں سے جلوس نکالے گئے۔ لال کنواں (دہلی) میں جلوس نے شدت اختیار کرلی پولیس نے گولی چلائی جس سے دو مسلم نو جوان مر گئے۔ اسی طرح یو پی کے بعض اور مقامات پر گولی چلی اور مسلمانوں کو جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
ایک دن کے لیے ہنگامہ کرنے اور یک طرفہ نقصان اٹھانے کے بعد مسلمان خاموش ہوگئے۔ اور"بابری مسجد" بدستور" رام جنم بھومی" مندر بنی رہی۔
اس دن کا تجربہ دیکھ کر میری زبان پر ایک جملہ آ گیا تھا جو بعد کو الرسالہ ستمبر 1986 کے سرورق پر شائع ہوا۔ وہ جملہ یہ تھا ––––––– بزدلی دکھا کر چپ ہونے سے بہتر یہ ہے کہ آدمی بزدلی دکھائے بغیر چپ ہو جائے۔
قربانی کے نام پر بر بادی
بابری مسجد کی بازیابی کے لیے نام نہاد قائدین کی تحریک اپنے اصل مقصد میں تو ایک فی صد بھی کامیاب نہیں ہوئی ۔ مگر اس نے مسلمانوں کے لیے انتہائی سنگین مسائل پیدا کر دیے ۔ ایک مسلم اخبار نے "دہشت کے مارے مسلمان " کے عنوان کے تحت لکھا ہے : "پور املک فرقہ واریت کی گھناؤنی آگ کی لپٹوں میں ہے۔ نفرت ، غصہ، انتقام اور کشیدگی سے مل کر جو ماحول بن رہا ہے ، اس نے معصوم ، بے قصور اور امن پسند انسانوں کے لیے باعزت اور باہمت طور پر زندہ رہنا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن بنا دیا ہے"۔ ( ہجوم ، 18-24 نومبر 1988)
یہ حالات اگر چہ سخت افسوسناک ہیں۔ مگر ان کا مثبت فائدہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے پہلی بار حقیقت پسندانہ انداز میں سوچنا شروع کیا ہے۔ اب وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان حالات کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ خود اپنے آپ پر ہے۔ ان حالات کو پیدا کرنے والے وہ نام نہاد مسلم لیڈر ہیں جو قربانی کے نام پر مسلمانوں کو بربادی کی راہوں میں دوڑاتے رہے۔
ماضی میں جذباتی سیاست کی نمائندگی کرنے والے ایک مسلم اخبار نے لکھا ہے کہ "اس میں قصور کچھ ہمار ابھی ہے ۔ ہم بھی جذبات سے مغلوب ہوگئے ۔ ہمارے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ٔحسنہ نہیں رہا۔ ہم نے مسئلہ کو تدبیر کے بجائے جذباتی انداز سے حل کرنے کی غلطی کی ۔۔۔۔۔ یہ جد و جہد اشتعال انگیز بیانات اور تقریروں سے سر ہونے والی نہیں ۔۔۔۔۔ "چڑھ جابیٹے سولی پر " کا عمل سودمند ثابت ہونے والا نہیں۔ (ندائے ملّت ، 23 اکتوبر 1988)
یہ اطمینان کی بات ہے کہ جذباتی سیاست کے سنگین نتائج دیکھنے کے بعد مسلمان اب اس سے دور ہونا چاہتے ہیں ۔" جان بیٹا خلافت پےدے دو " اور" چڑھ جا بیٹے سولی پر" جیسے نعروں پر احمقانہ قربانی کے ایک سوسال ضائع کرنے کے بعد اب ان کی آنکھیں کھل رہی ہیں۔ یہ نیا طرز فکر انھیں نام نہاد قائدین سے دور کرے گا، اور قائدین سے دوری ہی کا دوسرا نام منزل سے قریب ہونا ہے۔
الٹا نتیجہ
بابری مسجد کے نام پر اٹھائی جانے والی تحریک مکمل طور پر الٹا نتیجہ بر آمد کرنے والی ثابت ہوئی ہے۔ اس کا یہ خطرناک نتیجہ نکلا ہے کہ ہندوؤں کے کٹر عناصر پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر باہم متحد ہو گئے ہیں اور مسلمانوں کے لیے سنگین ترین خطرہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
13 نومبر 1988 کا واقعہ ہے۔ میں بھو پال ایئر پورٹ پر دہلی کی فلائٹ کا انتظار کر رہا تھا ۔ بھوپال کے ایک باشندہ مسٹر راج تیواری (عمر 50 سال) نے اپنا ایک ذاتی تجربہ مجھے بتایا۔ وہ بزنس کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھیں 22 اگست 1988 کو ویسٹ بنگال کے شہر بانکورا (Bankura) جانا پڑا۔ وہاں وہ پشپک ہوٹل میں ٹھہرے ، اس کے بغل میں ایک مندر تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ مندر کے اوپر ایک بورڈ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے :
ضلع شیوسینا کا ریالیہ ، پچھمی بنگال
راج تیواری صاحب نے کہا کہ میں اس بورڈ کو دیکھ رہا تھا کہ تقریباً 70 سال کا ایک بوڑھا بنگالی وہاں آگیا۔ راج تیواری صاحب چونکہ بنگلہ زبان جانتے تھے اس لیے اسی زبان میں اس سے گفتگو ہوئی۔ بنگالی نے پوچھا کہ کیا دیکھ رہے ہو ۔ راج تیواری صاحب نے کہا کہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ مندر کے بازو میں یہ سینا کیسی۔ بنگالی نے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے ، انھوں نے اپنا نام اور پتہ بتایا۔ اس کے بعد بنگالی نے کہا کہ اندر آؤ ۔ وہ راج تیواری صاحب کو اندر ایک کمرہ میں لے گیا جو دفتر کی مانندتھا اور کچھ لوگ وہاں کام کر رہے تھے۔ اس بنگالی کا نام پنکج مکرجی تھا۔
یہاں دیوار پر بہت سے ہندو لیڈروں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ مثلاً شیواجی ، رانا پرتاپ، ساورکر، ہیڈ گواڑ ، وغیرہ ۔ یہ تمام تصویریں دوفٹ چوڑی اور دوفٹ لمبے سائز میں تھیں۔ ان کے درمیان ایک زیادہ بڑی قد آدم تصویر لگی ہوئی تھی جو دوفٹ چوڑی اور چارفٹ لمبی تھی ۔ بقیہ تصویریں نصف حصۂ جسم کی تھیں مگر بڑی تصویر سر سے پاؤں تک پورے قد کی تھی۔
راج تیواری صاحب نے غور کر کے اس تصویر کو پہچانا تو وہ سید شہاب الدین کی تصویر تھی۔ انھوں نے مذکورہ بنگالی سے پوچھا کہ سید شہاب الدین کی تصویر یہاں کیوں لگی ہوئی ہے۔ وہ تو آپ کے دشمن ہیں۔ مذکورہ بنگالی نے جواب دیا کہ بیٹے ، یہ ہمارا دیوتا ہے۔ جو کام ہمارے دوسرے لیڈر ہزار سال میں بھی نہ کر سکے ، اس کو بھگوان شہاب الدین نے ڈیڑھ سال میں کر دیا ۔ سیکڑوں سال سے سوئے ہندو کو شہاب الدین نے ڈیڑھ سال میں جگا دیا۔ ہم تو ان کا مندر بنائیں گے اور ان کی پوجا کریں گے ۔
مسٹرراج تیواری نے یہ قصہ 13 نومبر کی شام کو 3 بجے مجھے بھو پال ائیر پورٹ پر لکھوایا اور اس کے نیچے اپنے دستخط کیے۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ کوئی شخص اس بات کو خود اپنی آنکھ سے دیکھنا چاہے تو وہ میرےساتھ بانکورہ چلے۔ میں اس کو یہ چیز وہاں دکھاؤں گا۔
اطلاعات بتاتی ہیں کہ مسٹرراج تیواری کی یہ رپورٹ انوکھی نہیں۔ چنانچہ ہفت روزہ ندائے ملّت( لکھنؤ)نے اپنے اداریہ مورخہ 23 اکتوبر 1988 میں لکھا ہے کہ " ایک بڑے ہندو لیڈر کے گھر ان کے ایک ہندو دوست گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ شہاب الدین صاحب کی ایک بڑی تصویر دیوار پر لگی ہوئی ہے ۔ پھول کی مالا بھی چڑھا رکھی ہے۔ ان کے ہندو دوست کو سخت تعجب ہوا کہ شہاب الدین کی فوٹو اس گھر میں کیسے۔ انھوں نے بہت تعجب سے پوچھا کہ یہ فوٹو آپ کے یہاں کیسے ۔ انھوں نے جواب دیا کہ شہاب الدین ہمارا محسن ہے۔ اس نے ہندو قوم کو متحد کر دیا۔ دراصل یہی ہوا "۔
ایسے کھلے ہوئے نشانات ظاہر ہونے کے بعد بھی اگر مسلمان اپنے دوست اور اپنے دشمن کو نہ پہچانیں تو ان سے زیادہ نادان قوم دنیا میں اور کوئی نہ ہوگی، نہ حال میں اور نہ ماضی میں۔