جوابی مذہبیت

مئی 1922  کا واقعہ ہے ۔ لاہور کے شاہ عالمی دروازہ کے باہر ہندوؤں نے ایک مندر تعمیر کیا۔ یہ دیکھ کر مسلمانوں کے اندر یہ جذبہ جاگ اٹھا کہ مندر کے ساتھ مسجد بھی ہونا چاہیے۔ جس فضا میں مندر کے کلس چمک رہے ہیں وہاں مسجد کے مینار کی عظمت بھی دکھائی دینا ضروری ہے۔ چنانچہ فوراً چندہ ہوا اور مندر کے پاس ایک زمین مسجد کے لیے حاصل کی گئی ۔ نماز عشاء کے بعد اس مسجد کی تعمیر شروع ہوئی ۔ ساری رات کام ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ جب صبح ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ مندر کے مقابلے میں ایک مسجد بنی ہوئی کھڑی ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس سے متاثر ہو کر ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنا یہ مشہور شعر کہا تھا :

مسجد تو بنالی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

یہ ایک علامتی واقعہ ہے جو موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی بیشتر سرگرمیوں پر چسپاں ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہماری اکثر دینی سرگرمیاں حقیقتاً جوابی سرگرمیاں ہیں ۔ ان کا اصل محرک کسی غیر قوم کا کوئی عمل ہے نہ کہ حقیقتاً خداا و ررسول کا حکم ۔

اس قسم کی مذہبیت جوابی مذہبیت ہے۔ وہ قومی محرک کے تحت پیدا ہوتی ہے نہ کہ خدائی محرک کے تحت ۔ چنانچہ مسلمانوں نے مادی اور جغرافی اور سیاسی اسباب کے تحت دیگر اقوام کو اپنا حریف سمجھ لیا ہے۔ وہ ان کو نیچا دکھا کر اپنے لیے قومی تسکین حاصل کرتے ہیں –––––––  ایسی تمام کارروائیاں بلا شبہ قومی کارروائیاں ہیں ، خواہ بظاہر ان کو مذہب کے لباس میں کیوں نہ پیش کیا گیا ہو۔

مومن وہ ہے جو خدا سے ڈرے۔ جس کی تمام سرگرمیاں خدا کے زیرِ اثر انجام پاتی ہوں۔ اس کا رکنا خدا کے لیے ہوتا ہواور ٹھہر نا خدا کے لیے۔ جو کام اس طرح کے جذبات کے ساتھ کیا جائے اس کے ساتھ خدا کی مدد شامل رہتی ہے ۔ وہ مفید نتائج پیدا کرتا ہے ۔ مگر جو کام دوسری قوموں کی ضد میں کیا جائے اس سے صرف نفرت اور کش مکش بڑھے گی۔ اس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ صورتِ حال مزید پیچیدہ ہوتی چلی جائے اور کبھی وہ حسنِ خاتمہ تک نہ پہنچے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom