عمل کارخ
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ ایمان لانے والوں سے کہو کہ ان لوگوں کو معاف کر دیں جو خدا کے دنوں کی امید نہیں رکھتے۔ تاکہ اللہ قوموں کواس کا بدلہ دے جو وہ کر رہے تھے ۔قُلْ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَغْفِرُوْا لِلَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ اَيَّامَ اللّٰهِ لِيَجْزِيَ قَوْمًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (45:14)
یعنی جو لوگ اللہ کی پکڑ سے نہیں ڈرتے جب وہ خدا سے بے خوف ہو کر اہل اسلام کے خلاف ظالمانہ کارروائی کر یں تو اہل اسلام کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ان کے خلاف جوابی کارروائی کرنے یا ان سے انتقام لینے کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ اس کام کو انھیں خدا کے اوپر چھوڑ دینا چاہیے۔ خدا سے بے خوف ہو کر جو لوگ ظلم کریں ، ان کو صرف خداہی ضروری سزا دے سکتا ہے ۔ ایسے معاملات میں مسلمانوں کے اوپر صبر ہے اور اللہ کے اوپر جرم کے مطابق مجرم کی سزا۔
اس حکم کا مطلب بے عملی یا انفعالیت نہیں ہے اور نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظالم کے مقابلے میں سپراندازی کا طریقہ اختیار کیا جائے ۔ یہ عمل کے رُخ کو متعین کرنا ہے۔ یعنی ایسے موقع پر اہل اسلام کو جوابی کارروائی کے رخ پر متحرک ہونے کے بجائے ایجابی رخ پر عمل کرنے میں سرگرم ہونا چاہیے ۔
انسان کا کام اپنی ذاتی ذمہ داری کو ادا کرنا ہے۔ خدا کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کے عمل کے مطابق، انھیں اس کا بدلہ دے۔ ایک شخص خدا کے دین کی دعوت لے کر اٹھے ، اور کچھ لوگ اس کے ساتھ برا سلوک کریں ، تو اس وقت داعی دو چیزوں کے درمیان کھڑا ہو جاتا ہے ۔ ایک یہ کہ وہ لوگوں کے آزار کو برداشت کرتے ہوئے اپنی دعوتی ذمہ داری کو بدستور جاری رکھے ۔ دوسرے یہ کہ وہ دعوتی عمل سے غافل ہو کر لوگوں کو سزا دینے یا ان سے انتقام لینے کے لیے دوڑ پڑے۔ پہلا طریقہ خدا کے حکم کے مطابق ہے اور دوسرا طریقہ خدا کے حکم کے خلاف ۔ پہلا طریقہ اختیار کرنے کی صورت میں یہ ہوتا ہے کہ دوسرے کام کے لیے خدا ان کی طرف سے کافی ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر مسلمان دوسری قسم کی روش کو اختیار کریں تو وہ دہرا مجرم بن جاتے ہیں۔ انھوں نے خدا کے کام کو اپنے ہاتھ میں لیا اور دوسرے یہ کہ ان کے اپنے لیے کرنے کا جو اصل کام تھا اس کو انھوں نے چھوڑ دیا۔
مومن کے عمل کا رخ ہمیشہ خدا کی طرف ہوتا ہے اور غیر مومن کے عمل کا رخ ہمیشہ انسان کی طرف۔