بیعت الرضوان
بیعت الرضوان ( 6 ھ ) اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے جو حُدیبیہ کے ضمن میں پیش آیا ۔ یہ سفر اصلاً عمرہ کرنے کے لیے ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا۔ اس وقت قریش سے آپ کی صلح کی بات چیت شروع ہوئی۔ اس دوران آپ نے حضرت عثمان بن عفان کو اپنا سفیر بنا کر قریش کے پاس بھیجا تاکہ وہ اہل ِمکہ کو بتائیں کہ آپ مکہ میں صرف عبادت کے لیے داخل ہونا چاہتے ہیں نہ کہ جنگ اورٹکراؤ کے لیے ۔
قریش اس بات پر راضی نہیں ہوئے۔ انھوں نے حضرت عثمان کو اپنے یہاں روک لیا۔جب آپ کی واپسی میں تاخیر ہوئی تو مشہور ہو گیا کہ قریش نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا ہے ۔ یہ خبربے حد غیر معمولی تھی۔ چنانچہ اس کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چودہ سو اصحاب کو جمع کیا اور ان سے بیعت لی ۔ اسی بیعت کا نام بیعت الرضوان ہے ۔
یہ بیعت کس بات پر تھی ۔ روایات میں آتا ہے کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت پر بیعت لی ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ، جو خود اس بیعت میں شریک تھے ، انھوں نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے موت پر بیعت نہیں لی۔ بلکہ اس بات پر بیعت لی کہ ہم بھاگیں گے نہیں (إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَمْ يُبَايِعْنَا عَلَى الْمَوْتِ، وَلَكِنْ بَايَعَنَا عَلَى أَلَّا نَفِرَّ) چنانچہ ابن قیم نے اس کے تذکرہ میں یہ الفاظ لکھے ہیں :( فَبَايَعُوهُ عَلَى أَنْ لَا يَفِرُّوا)
حدیبیہ کے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل امن پسندی کا مظاہرہ کیا۔ فریق ثانی کی اشتعال انگیزی کے باوجود آپ مشتعل نہیں ہوئے ۔ ٹکراؤ کے ہر موقع سے یک طرفہ طور پر اعراض کرتے رہے۔ اپنی جماعت کے سب سے زیادہ نرم مزاج آدمی کو اس سفارت کے ساتھ بھیجا کہ ہم صلح کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پھر جب قتل کی خبر ملی اس وقت بھی آپ نے ایسا نہیں کیا کہ خبر ملتے ہی قریش کے اوپر ٹوٹ پڑیں ۔ بلکہ اپنے مقام پر ٹھہر کر لوگوں سے صرف اس بات کی بیعت کی کہ ہم یہیں جمے رہیں گے ۔ قریش اگر خود سے لڑنے کے لیے آتے ہیں تو مقابلہ کریں گے ۔ اور اگر وہ صلح پر راضی ہوتے ہیں تو صلح کر لیں گے ، خواہ یہ صلح یک طرفہ شرطوں پر کیوں نہ ہو ، جیسا کہ آپ نے عملاً کیا ۔ بیعت الرضوان کے باوجود صلح کر لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بیعت اصلاً جنگ کے لیے نہ تھی ۔ اگر وہ جنگ کے لیے ہوتی تو ناممکن تھا کہ اس کے بعد آپ اپنے دشمن سے یک طرفہ شرطوں پر صلح کر لیں ۔
حضرت عثمان بن عفان جب مکہ گئے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر کی حیثیت سے وہاں گئے تھے ۔ بین اقوامی رواج کے مطابق، سفیر کا قتل اعلان جنگ کے ہم معنی ٰہوتا ہے ۔ جب یہ خبر ملی کہ قریش نے آپ کے سفیر کو قتل کر دیا ہے تو قدرتی طور پر آپ نے اس کا مطلب یہ سمجھا کہ قریش اب آخری طور پر آمادۂ جنگ ہو چکے ہیں، وہ کسی حال میں صلح اور امن کا معاملہ کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ اس خبر نے وقتی طور پر صورتِ حال کو یکسر بدل دیا۔
ابتدائی صورت حال کے مطابق ، آپ کے سامنے صلح یا جنگ میں انتخاب (Choice) کا مسئلہ تھا۔ اس وقت آپ نے جنگ کو چھوڑ کر صلح کا انتخاب فرمایا تھا ۔ مگر قتل سفیر کی خبر نے ظاہر کیا کہ اب فرار یا جنگ میں سے کسی ایک صورت کے انتخاب (Choice) کا مسئلہ درپیش ہے۔ یعنی قریش کسی حال میں بھی صلح پر راضی نہیں ہیں۔ وہ ہر حال میں جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت آپ نے اپنے اصحاب سے عدم فرار، اور بصورت جارحیت دفاع کی بیعت کی۔ مگر جب معلوم ہو اکہ یہ خبر غلط تھی تو پھر دوبارہ آپ جنگ کو چھوڑ کر صلح پر راضی ہو گئے، حالاں کہ یہ صلح آپ کو دشمن کی یک طرفہ شرطوں پر کرنی پڑی ۔
بیعت الرضوان کا پیغام یہ ہے کہ تمہارے لیے اگر انتخاب (Choice) فرار اور جنگ کے در میان ہو تو فرار کو چھوڑ کر جنگ کا طریقہ اختیار کرو ۔ اور اگر تمہارے لیے انتخاب (Choice) صلح اور جنگ کے درمیان ہو تو جنگ کو چھوڑ کر صلح کا طریقہ اختیار کرو، خواہ یہ صلح فریق ثانی کی یک طرفہ شرائط پر ہی کیوں نہ ہو ۔ مزید یہ کہ فرارکے مقابلے میں عدم فرار کو اختیار کرنے کا حکم بھی مشروط حکم ہے نہ کہ مطلق حکم کیوں کہ حدیبیہ (6ھ) میں آپ نے فرار کے مقابلے میں عدم فرار کا فیصلہ فرمایا مگر اس سے پہلےمکہ (1 ھ) میں اسی طرح کی صورت حال میں آپ نے وہاں سے ہجرت فرمائی۔